اسراء و معراج

پہلی قسط۔
تحریر مفتی محمد علی ابن طفیل الأزہری

سؤال نمبر 1 :

اللہ رب العزت نے کیوں فرمایا:

( لنريه من آياتنا / تاكہ ہم أنکو أپنی نشانیاں دکھائیں) 

أور أس نے فرمایا:
( إنه هو السميع البصير / بے شک وہی ذات سننے والی ہے أور دیکھنے والی ہے)
کسکو سنا أور دیکھا؟

جواب:

اللہ رب العزت نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی أس دعاء کو سنا جو آپ نے تکالیف کے بعد کی ، أور جو کچھ کفار نے آپکے ساتھ استہزاء کیا أسکو دیکھا ،
جب اللہ رب العزت نے آپکی دعاء کو سنا أور آپکے ساتھ ہونے والی جفاؤں کو دیکھا تو اللہ کی مشیت نے چاہا کہ وہ ذات أپنے محبوب کو أپنی نشانیاں دکھائے إسی لیے فرمایا:

( لنريه من آياتنا إنه هو السميع البصير ).

سؤال نمبر 2 :

أگر اللہ رب العزت آپکو لے گیا تو پھر زمانے کی قید کیوں فرمائی لفظ لیل یعنی رات کے ساتھ؟
کیونکہ مسافہ أور قوت میں تناسب تناسب عکسی ہوتا ہے مطلب جس طرح قوت بڑھے گی تو مسافہ کم ہوگی، تو یہاں تو قوت قوت باری تعالیٰ تھی تو پھر زمانہ کیسا؟

جواب:

ذات اسراء أور جو کچھ أس سفر میں دکھایا گیا دونوں میں فرق ہے ، نشانیاں حضور صلی الله علیہ وسلم نے أپنی بشری ذات کے ساتھ دیکھیں ، تو قانون بھی بشری ہونا چاہیے تھا ، أور قانون بشری میں لازمی ہے کہ زمانہ بھی ہو لہذا زمانہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے اعتبار سے ہے نہ کہ ذات اسراء یعنی جس ذات نے یہ سفر کروایا أس کے اعتبار سے نہیں۔۔

سؤال نمبر 3 :

حضور صلی الله علیہ وسلم کیسے گے ؟ أور کیسے واپس آئے؟ ہوسکتا ہے اسراء روح کے ساتھ ہوا ہو؟ یا روح و جسد دونوں کے ساتھ؟

جواب:

ایک بات یاد رکھیں ، اسراء و معراج کا فعل حضور صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے صادر نہیں ہوا یعنی وہ خود نہیں گے بلکہ أنکو لے جایا گیا لہذا قانون بشریت کے مطابق آپکے جانے و آنے کو نہیں پرکھیں گے۔
أگر روح کے ساتھ اسراء و معراج ہوتی تو کفار مکہ آپ سے سؤال نہ کرتے ،کیونکہ أگر کوئی شخص کہے کہ میں خواب میں ایک ہی رات میں لندن گیا بھی أور واپس بھی آگیا تو کیا کوئی اعتراض کرے گا؟
نہیں ، تو کفار مکہ کا اعتراض و استفسار دلیل ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو اسراء و معراج جاگتے ہوئے روح و جسم دونوں کے ساتھ ہوئی
إسی لیے قرآن کریم نے فرمایا:

( وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس) اسراء ، ٦٠
أگر یہ سفر مبارک خواب میں یا روح کے ساتھ ہوتا تو کبھی یہ سفر مبارک أنکے لیے فتنہ یعنی آزمائش نہ ہوتی ، کیونکہ خواب میں تو کوئی بھی کہیں بھی جاسکتا ہے تو کوئی اعتراض بھی نہیں کرتا، اعتراض تبھی ہوگا جب کوئی أیسے مختصر سے وقت میں جاگتے ہوئے اتنی مسافت پر مبنی فیصلہ طے کرلے لہذا یہ آیت بھی دلیل ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو سفر معراج و اسراء جسم و روح کے ساتھ جاگتے ہوئے ہوا.

سؤال نمبر 4:

آپ نے جس آیت سے دلیل پکڑی ہے أس میں لفظ ( رؤیا) ہے جو خواب کے لیے بولا جاتا ہے تو آپ نے کیسے اس آیت سے جاگتے ہوئے اس سفر مبارک پر دلیل پکڑی؟

جواب:

عربی میں یہ لفظ أصلا خواب ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے
لیکن عربی میں ہی بطور بلاغت اسکا استعمال جاگتے ہوئے کسی شئے کو دیکھنے کے لیے أس وقت استعمال ہوتا ہے جب إنسان جاگتے ہوئے کوئی بہت بڑی شئے کو دیکھے جسکا دیکھنا صرف خواب ہی میں ممکن ہو تو سفر معراج و اسراء مبارک بھی وہ عظیم سفر تھا جسکی اتنی طویل مسافت صرف خواب میں ہی ہوسکتی تھی جسکو حضور صلی الله علیہ وسلم نے جاگتے ہوئے جسم و روح کے ساتھ طئے فرمایا۔۔
لہذا لفظ ( رؤیا) استعمال کرکے سفر معراج و اسراء کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا کہ جو سفر صرف خواب میں ممکن ہوسکتا ہے وہ ہم نے أپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جاگتے ہوئے طئے کروایا.

سؤال نمبر 5 :

إس آیت میں اللہ رب العزت نے لفظ ( جعل) کیوں استعمال فرمایا؟

جواب:

جعل جب معدوم شئے کے ساتھ بولا جائے تو مطلب ہوتا ہے أسکو وجود دینا یعنی تخلیق کرنا ، أور جب موجود شئے کے ساتھ بولا جائے تو مطلب ہوتا ہے أس شئے کو ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کرنا ،
یعنی جعل کے ساتھ ایک مفعول آئے توعدم سے وجود میں لانا مقصود ہوتا ہے ، أور دو مفعول ہوں تو موجود کو ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کرنا مراد ہوتا ہے مثلا :
( قال إني جاعلك للناس إماما/ أس نے فرمایا: بے شک میں تمہیں لوگوں کے لیے إمام بناتا ہوں) بقرہ ، ١٢٤ .

إس میں واضح ہے کہ دو مفعول ہیں لہذا ابراہیم علیہ السلام کے مقام میں تبدیلی کو بیان کیا جارہا ہے
تو رؤیت والی آیت میں لفظ ( جعل) استعمال کرکے إس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ رؤیت پہلے موجود تھی أب ہم أس رؤیت کی حالت کو تبدیل کررہے ہیں یعنی خواب والی رؤیت کو یقظہ والی رؤیت میں بدل رہے ہیں لہذا یہ لفظ بھی دلیل ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو جاگتے ہوئے معراج و اسراء کا سفر مبارک کروایا گیا۔

سؤال نمبر 6 :

آیت میں ( برسوله يا بنبيه) کی بجائے ( بعبده ) کیوں فرمایا ؟

جواب:

(بعبدہ) اس لیے فرمایا کہ تمام أنبیاء تصحیح عبودیت کے لیے آئے تو حضور صلی الله علیہ وسلم کا ذکر عبودیت کے ساتھ کرنا اس بات کی طرف إشارہ ہے کہ عبودیت محمدی میں مخلوق کے لیے أسوہ حسنہ ہے ، اب وہی عبودیت قبول ہوگی جو عبودیت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوگی۔
پس اس آیت میں ذکر عبودیت حضور صلی الله علیہ وسلم کے شرف کی طرف إشارہ کررہا ہے۔
أور ( بعبدہ) اس لیے بھی فرمایا تاکہ لوگ جان لیں کہ ہم نے یہ عظیم سفر مدت قصیرہ میں أپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم و روح کے ساتھ حالت یقظہ ( جاگتے) میں کروایا ، کیونکہ کلمۃ عبد جسم و روح دونوں ہوں تو بولا جاتا ہے
قلت: عبودیت میں حجیت حدیث کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو میرا مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کرے أسی کو کرے یہی عبودیت ہے ، أور اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس سفر میں عبودیت کا عظیم تحفہ ملنے والا تھا أور وہ ہے نماز ،لہذا فرضیت نماز کی طرف بھی اشارہ ہے.

سؤال نمبر 7 :

مسجد أقصی کیوں فرمایا حالانکہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے أس میں نماز نہیں پڑھی ، أور نہ ہی یہاں پہ مسجد أقصی موجودہ مسجد کے معنی میں ہے؟

جواب:

جب کسی شئے کا استعمال اشتقاق وصفی کے طور پہ ہو یا علم ( نام) کے طور پہ ہو تو دونوں استعمال میں فرق ہوتا ہے ، أور یہاں پہ مسجد اقصی علم کے طور پہ استعمال ہوا ہے یعنی خاص مسجد کے نام سے کیونکہ مسجد کا وجود حضور صلی الله علیہ وسلم کی شریعت میں ہی نہیں بلکہ پہلے بھی مساجد تھیں جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

( لنتخذن عليهم مسجدا/ ہم ضرور بالضرور أنکے أوپر مسجد بنائیں گے) کھف، ٢١ .

سؤال نمبر 8 :
آیت اسراء میں یہ کیوں کہا گیا ( من المسجد الحرام إلی المسجد الأقصی ) یعنی یہ سفر مبارک مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ ہی کی طرف کیوں ہوا ؟ کسی أور جہت سے کیوں نہیں؟

جواب:

یہ سفر مبارک مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف ہونے سے بہت سے حقائق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے
مثلا اس میں عموم رسالت کی طرف إشارہ ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی نبوت تمام لوگوں کے لیے ہے حتی کہ بنی اسرائیل کے لیے بھی جنکی طرف أنبیاء تشریف لائے ، کیونکہ مسجد اقصی قدسیت موسی و عیسں علیہ السلام سے مزین ہے ،
أور مسجد حرام قدسیت کعبہ سے منور ہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو ذات قدسیت کعبہ سے نکلی أسکی نبوت کے احاطہ میں تمام بشریت آتی ہے لہذا إس میں أن یہودیوں و عیسائیوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت صرف اہل عرب کے لیے تھی۔
تو مسجد أقصی میں داخل ہونا اس بات کی طرف إشارہ کرتا ہے کہ آپکی شریعت مسجد أقصی میں بھی داخل ہوچکی تو جس جس کے بھی مقدسات دینی مسجد أقصی سے منسلک ہیں وہ سمجھ لیں کہ أنکے مقدسات میں نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوچکی ہے ، اب أن لوگوں کا تقدس تبھی ہے جب وہ نبوت محمدی پر إیمان لائیں۔

سؤال نمبر 9۔۔۔۔۔جاری ہے۔

(کتاب الاسراء و المعراج للعارف باللہ الشیخ محمد متولی الشعراوی الأزہری رحمہ اللہ۔)

Comments

Popular posts from this blog