قرآن کو حفظ کرکے بھول جانا ۔۔تفصیلا حکم
تحریر ابن طفیل الأزہری
سؤال:
السلام علیکم مفتی صاحب کیسے ہو ؟
قرآن حفظ کر لینے کے بعد بھول جانے پر قرآن وسنت کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرما دیں
قرآن صحاح فقھاء کی روشنی میں؟
جواب أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی ) :
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
الحمد للہ ، آپ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خیر سے ہونگے،
وبعد:
قرآن مجید و أحادیث میں قرآن کے حفظ کی ترغیب دی گئی ہے جیسے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا:
" بل هو آيات بينات في صدور الذين أوتوا العلم .. "[ العنكبوت: 49 ]
ترجمہ:
بلکہ وہ روشن آیات ہے جو أہل علم کے سینوں میں ( محفوظ ہے).
إس آیت میں اللہ رب العزت أن لوگوں کی تعریف کررہا ہے جنکے سینیں قرآن کی آیات و سیرت نبوی سے روشن ہیں کیونکہ علامہ ابن جریر طبری فرماتے ہیں جسکا خلاصہ ہے :
إس آیت کے دو معانی ہیں ؛ بعض نے فرمایا: " ھو/ وہ" سے مراد قرآن ہے ، أور بعض نے فرمایا: " ھو/ وہ" سے مراد حضور صلی الله علیہ وسلم ہیں أور إسی معنی کو ابن جریر طبری نے ترجیح دی ہے .
( تفسیر طبری ، 20/51 )
أور حفظ قرآن پہ إمام بخاری نے باب باندھا ہے جسکا عنوان ہے" باب استذکار القرآن وتعاهده " ، تعاھد بمعنی حفظ ہے کنایتا إسی باب میں وہ حدیث لائے ہیں جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعاھد/ حفظ برقرار رکھنے کا حکم فرمایا .
أور إمام مسلم نے بھی أپنی صحیح میں قرآن کے حفظ کو برقرار رکھنے أور نہ بھولنے پر کافی احادیث روایت کی ہیں ، أور جس باب میں یہ أحادیث لائے ہیں أسکا عنوان ہے" باب الأمر بتعهد القرآن ، وكراهة قول نسيت آية كذا ، وجواز قولها أنسيتها "
أور صحیح مسلم میں حدیث موسی بن عقبہ میں یہ الفاظ بھی ہیں:
" وإذا قام صاحب القرآن فقرأه بالليل ، والنهار ذكره ، وإذا لم يقم به نسيه"
( صحیح مسلم ، حدیث نمبر: 789 )
ترجمہ:
أور جب صاحب قرآن ( حافظ قرآن) أس ( قرآن) کو دن رات پڑھے گا تو وہ أسے یاد رکھے گا ، أور أگر أس ( قرآن کی قراءت) کے ساتھ قیام نہیں فرماتا تو وہ أسے بھول جائے گا.
لہذا یہ حدیث صریح ہے کہ حافظ قرآن کو قرآن پڑھتے رہنا چاہیے تاکہ وہ یاد رہے بھولے نہیں.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أگر حافظ قرآن کو قرآن بھول جائے یا سورت یا کوئی آیت تو أسکے بارے میں أحادیث میں کیا حکم ہے؟
إس تحریر میں وہ حفاظ کرام مراد نہیں ہیں جنکو متشابہ لگتا ہے یا وقتی طور پہ ذہن سے نکل گیا بلکہ وہ مراد ہیں جنکو مستقلا بھول چکا ہے
سنن ترمذی میں ہے حدیث طویل کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
" وعرضت على ذنوب أمتي ، فلم أر ذنبا أعظم من سورة من القرآن أو آية أوتيها رجل ثم نسي "
( سنن الترمذی ، حدیث نمبر: 2916 ، 5/28 ، حدیث ضعیف ہے لیکن إمام عینی فرماتے ہیں : صاحب الکمال نے فرمایا: یہ حدیث حضرت أنس اور أنکے علاوہ بھی مروی ہے – شرح ابی داؤد للعینی ، باب فی کنس المسجد ، 2/369 - ، علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں : ابن خزیمہ نے إس حدیث کی تصحیح کی ہے – بلوغ المرام، حدیث نمبر: 263 ، ص : 76 -)
ترجمہ :
میرے أوپر أمت کے گناہوں کو پیش کیا گیا ، پس مینے أس شخص جسکو قرآن کی کوئی سورت یا آیت یاد کروائی گئی پھر أسکو وہ بھول گیا کے گناہ سے بڑا گناہ نہیں دیکھا.
إس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں:
مینے قرآن کو حفظ کرکے بھلادینے سے بڑا گناہ نہیں دیکھا.
لہذا جو حفاظ کرام قرآن کو بھلا چکے ہیں أنکو رمضان المبارک کی بابرکت راتوں سے فائدہ أٹھاتے ہوئے قرآن کریم کو یاد کرنا شروع کردینا چاہیے۔ أگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن احتیاط کے باب میں عمل کیا جاسکتا ہے.
سنن أبی داؤد میں کی حدیث ضعیف ہے جس میں ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
" ما من امرئ يقرأ القرآن ، ثم ينساه ، إلا لقي الله عز وجل يوم القيامة أجذم "
( سنن أبی داؤد ، باب التشدید فیمن حفظ القرآن ثم نسیہ ، حدیث نمبر: 1474 ، 2/75 . حدیث ضعیف ہے )
ترجمہ:
کوئی بھی شخص أیسا نہیں ہے جس نے قرآن پڑھا ہو پھر أسکو بھول گیا سوائے إسکے کہ وہ جب اللہ کو قیامت کے دن ملے گا تو خیر سے محروم ہوگا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس حافظ قرآن کو قرآن بھول جائے أسکے متعلق فقہائے کرام کی آراء:
ملا علی قاری سنن ترمذی کی حدیث جو أوپر ہم بیان کرچکے ہیں أسکی شرح میں فرماتے ہیں:
أس شخص کے لیے وعید ہے جس نے جان بوجھ کر قرآن چھوڑ دیا أور چھوڑنے کی وجہ سے بھول گیا . پھر فرماتے ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے:
" ذنبا أعظم " کا معنی ہے کہ صغائر گناہوں میں سب سے بڑا گناہ
أور جن أحادیث میں قرآن بھولنے پر وعید آئی ہیں أنکے بارے میں مذہب حنفی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
والنسيان عندنا أن لا يقدر أن يقرأ بالنظر كذا في شرح شرعة الإسلام .
( مرقاۃ المفاتیح ، باب المساجد و مواضع الصلاۃ ، حدیث نمبر: 720 ، 2/605 )
ترجمہ : نسیان ( کا معنی) ہمارے ہاں یہ ہے کہ وہ ناظرہ قرآن پڑھنے پر بھی قادر نہ رہے ( یعنی دیکھ کر پڑھنا بھی بھول گیا) جیسے کہ شرعۃ إسلام ( کتاب) میں ہے.
کتاب شرح شرعۃ الإسلام ابوبکر الجوغی إمام زادہ کی نہایت نفیس کتاب ہے.
علامہ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں جسکا خلاصہ ہے:
أئمۂ سلف میں قرآن کے بھولنے والے مسئلہ میں اختلاف ہے:
پہلی رائے:
قرآن کو حفظ کرکے بھول جانا گناہ کبیرہ ہے ، حضرت ضحاک بن مزاحم سے موقوفا روایت ہے کہ جو شخص بھی قرآن کو بھولتا ہے یہ دلیل ہے کہ أس سے کوئی نہ کوئی أیسا گناہ ضرور سرزد ہوا ہے جسکی وجہ سے حفظ قرآن کی نعمت چھن گئی .
أور پھر طریق أبی العالیہ سے موقوفا روایت بھی ذکر کی جس میں ہے کہ سب سے بڑا گناہ قرآن کو پڑھ کر بھول جانا ہے ، اس سند کے متعلق ابن حجر فرماتے ہیں: اسکی سند جید ہے.
دوسری رائے:
یہ ناپسندیدہ فعل ہے یعنی قرآن کو بھول جانا اللہ کی طرف سے کسی گناہ پر سزا ہے ، أئمہ اسکو مکروہ کہتے. إسکو بعض أئمہ شافعیہ کی طرف منسوب کیا.
( فتح الباری لابن حجر العسقلانی ، باب نسیان القرآن ، 9/86 )
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا شخص جس کا حافظہ کمزور ہے جو بار بار محنت کرنے کے بعد بھی اتنی پختگی نہیں رکھتا ایسے کے لیے کیا حکم ھے؟
أیسا شخص کیونکہ مضطر ہے ، أسکا نسیان غفلت و سستی پر مںنی نہیں لہذا وہ نسیان والے حکم میں داخل نہیں کیونکہ نسیان حکم اسی وقت لگے گا جب وہ غفلت برتے جیسے أوپر ملا علی قاری کا قول گذر چکا ہے.اور صحیحین کی أحادیث میں بھی إسی بات کی طرف إشارہ ہے.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أگر قرآن یا کوئی آیت یا سورت بھول جائے تو کیا کہنا چاہیے؟
قرآن أگر بھول جائے تو یہ کہنا چاہیے کہ " مجھے بھلادیا گیا" ، یہ نہیں کہنا چاہیے " میں بھول گیا " کیونکہ ہماری کیا مجال کہ ہم قرآن کو بھول جائیں بلکہ قرآن مجید نے ہمیں ہمارے گناہوں کی وجہ سے چھوڑ دیا.
أور یہی متفق علیہ حدیث سے ثابت ہے ؛
صحیح بخاری ، باب نسیان القرآن ، حدیث نمبر: 5039 ، صحیح مسلم ، باب الأمر بتعھد القرآن ، حدیث نمبر: 790 .
إن أحادیث میں یہاں تک ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ " میں قرآن بھول گیا" وہ بہت برا قول ہے مطلب أسکو یہ کہنا چاہیے تھا " مجھے قرآن بھلادیا گیا".
حفاظ کرام !
إن أحادیث و آثار پہ غور کریں جو واضح کررہی ہیں کہ حفظ کیا ہوا قرآن أسی کو بھولتا ہے جس سے کوئی نہ کوئی گناہ سرزد ہوا ہو – استغفر اللہ-
لہذا جسکو قرآن بھول جائے وہی أسکے لیے سزا ہے کیونکہ أسکے أجر میں کمی ہوگی، أور قرآن گناہوں پہ اصرار کرنے والے کے سینے کو پسند نہیں کرتا.
حفاظ کرام آج سے عھد کریں کہ ہم حفظ کیا ہوا قرآن دوبارہ یاد کرنا شروع کریں گے آج ہی سے. أور رمضان المبارک کی بابرکت ساعات کا وسیلہ دے کر أپنے أس گناہ کی معافی مانگیں جسکی وجہ سے آپکو قرآن بھلادیا گیا.
شائد کہ أتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
واللہ أعلم
Comments
Post a Comment