فکری اعتدال کے کلیات خمسہ
فکری اعتدال کے کلیات خمسہ
أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)
مجمع البحوث الإسلامية کے تحت أزہر شریف کا " الأزھر " کے نام سے ماہانہ مجلہ نکلتا ہے جسکو طلبائے أزہر میں فری تقسیم کیا جاتا ہے یا کبھی ہدیہ مصری ایک پاونڈ ہوتا ہے ، أور پورے مصر میں بھی تقسیم ہوتا ہے ،
اپریل 2019 کے مجلہ کے الجزء 8 ، سنہ : 92 ، ص : 1405 پہ ایک تربیتی مضمون شائع ہوا جسکا عنوان تھا :
" ضوابط الأمن الفکری فی المنظور الإسلامي "
" إسلامی قوانین کی روشنی میں فکری أمن کے ضوابط "
مقصود عنوان یہ ہے کہ فکر انسانی کو ہم تشدد و تطرف و تکفیریت سے کیسے بچا سکتے ہیں؟
أور یہ أصول مسلمہ ہے کہ معاشرے کا أمن فکری أمن کے بغیر ممکن نہیں.
إسکے محرر أسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل عبد الرحمن الحسینی ہیں ، یہ أزہر شریف میں أصول فقہ کے لیکچرار ہیں.
اس مقال میں آپ نے سمندر کو کوزے میں بند کیا ہے ،
شدت و تکفیریت و تطرف پر مبنی فکر کو ختم کرنے کے لیے کلیات خمسہ بیان کیے ہیں ،
أور ہر کلیہ و ضابطہ میں قرآن و أحادیث و صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کے عمل میں سے دلائل دیے ،
مخافت طول کلام کی وجہ سے ہم صرف أنکے کلیات خمسہ بیان کریں گے أور أپنے الفاظ میں مختصراً أسکا مفہوم اُردو میں واضح کریں گے ،
أگر ان کلیات خمسہ کو مجادلہ و مباحثہ و مناقشہ و مکالمہ و مکاتبہ و مخاطبہ کے دوران أپنا دستور بنا لیا جائے تو ہماری فکر میں تہذب و شائستگی و تکرم مع المخالف جزو لاینفک بن جائے گا،
أور وہ کلیات خمسہ درج ذیل ہیں:
پہلا کلیہ: عدم التفكير في ذات الله تعالى
اللہ کی ذات میں غور و فکر نہ کیا جائے ؛
اللہ کی ذات میں غور و فکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کیسا ہے؟ کس نے بنایا؟ أور کہاں تھا ؟ وغیرہ وغیرہ - العیاذ باللہ تعالی- کیونکہ یہ فکر مفکر کو راہ اعتدال سے خارج کردیتی ہے بلکہ اللہ کی کائنات میں غور و فکر کرنا چاہیے.
دوسرا کلیہ: ألا يعارض الكتاب والسنة والأحكام الواردة فيهما
کسی کی فکر قرآن و سنّت اور اس میں وارد ہونے والے أحکام سے نہ ٹکرائے؛
کسی کی فکر کی صحت کا معیار قرآن و أحادیث ہے لہذا جسکی فکر اس سے ٹکرائے تو أسکو أس فکر سے خیر آباد کہ دینا چاہیے کیونکہ أگر وہ قرآن و أحادیث کو حاکم نہیں مانے گا تو فکر میں تشدد و تعصب و تفکیریت جنم لے گی.
آج اکثر ملحدین ومن نهج منهجه کا یہی حال ہے.
تیسرا کلیہ: ألا يطلب لكل حكم شرعي علة وسببا
ہر حکم شرعی کے لیے علت و سبب کا مطالبہ نہ کرے؛
إنسان کی عقل ناقص ہے وہ أحکام الہیہ کی علل و اسباب صحیح بیان نہیں کرپائے گی تو مسفتسر مطمئن نہیں ہوگا لہذا جب وہ مطمئن نہیں ہوگا تو معاندانہ رویہ اختیار کرلے گا أور دین کی قطعیات کو بھی جھٹلا دے گا.
چوتھا کلیہ: أن كل إنسان يؤخذ ويرد على قول إلا النبي صلى الله عليه وسلم
ہر انسان کے أقوال میں سے بعض لیے جاسکتے ہیں أور بعض رد کیے جاسکتے ہیں سوائے حضور صلی الله علیہ وسلم کے ؛
جب ہم کسی شخصیت کے ہر قول کو صحیح مانتے ہیں أور أسکے کسی قول پہ کسی کو انتقاد و اختلاف کا حق نہیں دیتے تو یہ منہج معتقدین کے لیے غلو حتی کہ تکفیریت والی فکر کو جنم دیتا ہے ،
اسکا أثر یہ ہوتا ہے کہ منتقدین و مخالفین بھی سخت لہجہ أپنانے پہ مجبور ہوجاتے ہیں.
أور دوسری طرف منتقدین و مختلفین کو بھی دوران اختلاف متمسک بالاحترام رہنا چاہیے ۔
لہذا یہ حق صرف و صرف حضور صلی الله علیہ وسلم کا ہے جنکے کسی بھی قول مبارک سے اختلاف جائز نہیں بلکہ اختلاف کفر ہے،
أور ہمیں حضور صلی الله علیہ وسلم کی اس خصوصیت میں کسی کو بھی شریک نہیں کرنا چاہیے .
پانچواں کلیہ: عدم احتقار وازدراء الفكر المخالف ، والتزام أدب الحوار معه.
مخالف کی فکر کا احتقار و استہزاء نہیں کرنا چاہیے بلکہ مجادلہ بالأحسن ہو ؛
جب بھی کسی کی فکر سے اختلاف کریں تو اختلاف و انتقاد و تردید کے وقت احتقارانہ و استہزاءانہ أسلوب اختیار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ أیسے رد میں اہل صواب کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ دونوں طرف شدت و تکفیریت جنم لیتی ہے .
أور صحیح رائے کو أپنانے میں أپنی شکست تسلیم کرے گا۔
فکری اعتدال کے لیے أگر ہم ان کلیات خمسہ کو تعلیمی اداروں میں لوحتا معلق کریں تو اس قول "الرؤیة وسيلة العمل" کے تحت بہتر ہوگا.
وعلی الانتھاء أقول:
کلنا ملتمسون أحکام الشریعۃ الإسلامیۃ وفق رضا اللہ و رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم ،
أور ہمیں مداومۃ اللہ کے حضور صواب کی توفیق کے طلبگار رہنا چاہیے .
أور قطعی محاکمہ اللہ کا حق ہے اس میں خود کو شریک مت کریں.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
Comments
Post a Comment