اسراء و معراج
دوسری قسط
تحریر مفتی محمد علی ابن طفیل الأزہری
سؤال نمبر 9 :
اللہ رب العزت نے سفر اسراء کا ذکر صراحتاً کیا لیکن سفر معراج کا ذکر صراحتاً کیوں نہ کیا ؟
کیا حکمت ہے اس میں؟
جواب:
سفر اسراء کا ذکر صراحتاً کرنے أور معراج کا ذکر کنایتا کرنے یعنی اسراء کا ذکر کیا تو فرمایا ( من المسجد الحرام إلی المسجد الأقصی ) ، أور معراج کے ذکر میں نہیں فرمایا ( من المسجد الأقصی إلي سدرة المنتهى ) کیونکہ اس میں اللہ رب العزت کی رحمت کی طرف اشارہ ہے ،
وہ اس طرح کہ مسجد حرام سے مسجد أقصی تک کے راستے کو لوگوں نے دیکھا ہوا تھا ، أور بیت المقدس سے سدرۃ المنتھی پھر لامکاں تک کے طریق سے کوئی واقف نہیں تھا ،
لہذا اسراء پر مادی دلیل قائم کرنا ممکن تھا جیسے کفار نے پوچھا کہ آپ بتائیں پھر مسجد اقصی کے بارے میں ؟
لیکن معراج پر مادی دلیل قائم کرنا مستحیل تھا کیونکہ لوگوں نے وہ رستہ دیکھا ہوا نہ تھا ، أگر مادی دلیل قائم بھی کی جاتی تو بھی وہ نہ مانتے پھر اس دلیل پر بھی سؤال ہوتا اس طرح اعتراضات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا کیونکہ انہوں نے سدرۃ المنتھی کو دیکھا ہوا نہ تھا۔
یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام نے فرمایا جو سفر اسراء کا إنکار کرے وہ کافر أور جو معراج کا إنکار کرے وہ گمراہ ہے یہی اللہ کی رحمت ہے کہ معراج کا ذکر کنایتا کرنے میں منکر تکفیر سے بچ گیا۔
سؤال نمبر 10 :
جب سفر اسراء کا ذکر کیا تو ( لنریہ) ذکر کیا یعنی ہم نے دکھایا ، لیکن جب معراج کا ذکر کیا تو فرمایا ( رأی ) مطلب أس نے خود دیکھا ۔
اسراء میں نشانیاں دکھائی گئیں أور معراج میں مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نشانیوں کو خود دیکھا یہ فرق کیوں؟
جواب:
اللہ رب العزت نے جب اسراء کا ذکر کیا تو فرمایا ( لنریه من آياتنا / تاکہ ہم أسکو أپنی نشانیاں دکھائیں) أور جب معراج کا ذکر کیا تو فرمایا ( ولقد رأى من آيات ربه الكبرى/ تحقیق أس نے أپنے رب کی نشانیوں میں سے بڑی نشانی کو دیکھا)
إن دو آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اسراء میں مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو نشانیاں دکھائی گئیں ، أور معراج میں مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نشانیوں کو خود دیکھا یہ جو فرق کیا گیا ہے اس میں مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ ہے ،
اسراء میں آپ مقام بشریت پر تھے تو لازم تھا کہ اللہ رب العزت أپنی نشانیوں کو قانون بشریت میں ڈھالے تاکہ أسکا محبوب صلی اللہ علیہ وسلم أن نشانیوں کو دیکھ پائیں کیونکہ وہ مقام بشریت میں خود وہ نشانیاں نہیں دیکھ سکتے تھے لہذا کوئی دکھانے والا ہونا چاہیے تھا تو اس لیے فرمایا ( لنريه) ۔
جب معراج کا سفر شروع ہوا تو مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام بشریت مقام نورانیت میں ڈھل چکا تھا اب وہاں نورانی چیزوں کو قانون بشریت میں ڈھالنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ اب وہ خود ہر نشانی کو دیکھ سکتے تھے لہذا اس لیے معراج میں فرمایا ( ولقد رأى من آيات ربه الكبرى )
إس سے واضح ہوتا ہے کہ اسراء میں دکھایا گیا اور معراج میں خود دیکھا یہ مقام بشریت سے مقام نورانیت کے ارتقائی مراحل کی طرف اشارہ ہے۔
سؤال نمبر 11 :
آیت ( ولقد رأى من آيات ربه الكبرى) میں ( کبری) آیات کی صفت ہے جسکا معنی ہوگا کہ تحقیق أس نے أپنے رب کی بڑی نشانیوں کو دیکھا؟ یا پھر کسی أور چیر کی طرف إشارہ ہے؟
جواب:
مفسرین نے جو بیان کیا وہ یہی ہے کہ کبری آیات کی صفت ہے جسکا مفہوم ہے کہ بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں لیکں جو سیاق بتا رہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ آیات کی صفت نہی بلکہ مفعول ہے جسکا مطلب ہے کہ نشانیوں میں سے کسی عظیم نشانی کی زیارت کی
لہذا جب ہم سیاق کو دیکھیں ( ثم دنا فتدلی فکان قاب قوسین أو أدنی / وہ قریب ہوا پھر وہ اور قریب ہوا ، پس دو کمانوں کے برابر یا أس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا تھا ) النجم۔
سدرہ منتہی تک جبریل ساتھ تھے لیکن سدرہ کے بعد وہ ساتھ نہیں تھے جس سے یہ واضح معلوم ہوتا ہے کہ الکبری میں إشارہ ہے کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے أپنے رب کو دیکھا بلا کیف و تشبیہ و تمثیل۔
سؤال 12 :
أگر آپ کہتے ہیں کہ دنو سے مراد یہ ہے کہ اللہ قریب ہوا تو کیا یہ تفسیر آیت( لبس كمثله شيء / أسكي مثل کوئی شئے نہیں) کے خلاف نہیں کیونکہ أگر اللہ قریب ہوا تو یہ انتقال ہے ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف تو مثلیت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ انتقال مخلوق کی صفت ہے اللہ کی نہیں؟
جواب:
جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ موجود ہے تو ہم بھی کہتے ہیں کہ ہم موجود ہیں تو کیا اللہ کا موجود ہونا ہماری طرح موجود ہونے کے معنی میں ہوگا؟
نہیں ،
جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ جانتا ہے ، أور ہم بھی کہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں تو کیا اللہ کا جاننا ہمارے جاننے کی طرح ہوگا؟
نہیں،
تو پھر ہم کیوں کہتے ہیں کہ معراج کی رات اگر دنا سے مراد اللہ لیا جائے تو مطلب جیسے ہم قریب ہوتے وہ بھی ویسے ہی قریب ہوا ؟
جب أوپر والی صفات میں تشابہ نہیں ہوا تو پھر دنو یعنی اللہ کا قریب ہونا بھی مخلوق کی طرح قریب ہونا نہیں۔
لہذا اللہ کی ذات أسکا فعل أور أسکی صفات ہماری طرح نہیں ،تو جس طرح باقی صفات میں تشابہ کا خوف نہیں إسی طرح دنا فتدلی والی صفت میں بھی تشابہ کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔
قلت: یہ تقرب حضور صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے تھا جیسے زمانہ کا تعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے تھا۔ لہذا کوئی مماثلت نہیں۔
معراج کا سدرۃ المنتھی تک انکار کرنے والا اس مسئلہ میں گمراہی ہر ہے بشرطیکہ وہ مطلقاً انکار کرے أگر یقظۃ یا مناما یعنی جاگتے یا خواب میں معراج ہونے کے اعتبار سے إنکار کرے تو گمراہی کا فتوی نہیں لگائیں گے کیونکہ یہ مسئلہ مختلف فیہا ہے ، اور سدرہ المنتہیٰ سے لامکاں تک کا انکار کرنے والے پہ کوئی حکم نہیں۔
سؤال نمبر 13 ۔۔۔جاری ہے۔
Comments
Post a Comment