اسراء و معراج

سؤال نمبر 18:

قرآن مجید فرماتا ہے ( أسری بعبده ) أسری متعدی فعل ہے تو پھر کیوں اسی متعدی فعل کو دوبارہ ( با) کے ساتھ متعدی بنایا گیا ؟ کیا یہ تکرار قرآن مجید میں بے فائدہ نہیں؟

جواب:

سب سے پہلے جس شئے کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ فعل لازم کو متعدی بنانے کے کئ طریقے ہیں أن میں سے مشہور دو ہیں:
پہلا طریقہ:
فعل لازم کو ہمزہ سے متعدی بنایا جاتا ہے مثلا ( ذھب) فعل لازم تھا جسکا مطلب وہ خود گیا، لیکن جب أسکو متعدی بنایا گیا تو یوں ہوگا ( أذھب ) جسکا معنی ہے وہ لے گیا .
دوسرا طریقہ:
فعل لازم کو ( با) سے متعدی بنایا جاتا ہے جیسے ( ذهب) جسکا مفہوم ہے کہ وہ خود گیا لیکن جب اسی کو متعدی بنایا ( ذھب بعلی) وہ علی کو لے گیا.

دونوں طریقوں میں فعل لازم کو متعدی جو بنایا جاتا ہے معنی کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے وہ یہ کہ:

(ہمزہ) کے ساتھ جب لازم کو متعدی بنایا جاتا ہے تو أس میں فاعل مفعول کے ساتھ فعل میں شریک نہیں ہوتا لیکن جب لازم کو ( با) کے ساتھ متعدی بنایا جائے تو مطلب فاعل مفعول کے ساتھ فعل میں شریک ہوتا مثلا:
أقام علی زيدا ( علي نے زيد كو كهڑا  كيا) ، أب علي فعل قيام ميں زيد كے ساتھ شريك نهيں هے يعني علي زيد كے ساتھ كهڑا نہیں ہوا ،
لكن اگر يوں ہو" قمت بزيد" أب فعل " حرف باء" كي وجہ سے متعدي ہے ، لہذا علي قيام ميں زيد كے ساتھ شريك ہے يعني علي أور زيد دونو  كھڑے ہوئے" يه سهيلي اور مبرد كي راۓ ہے من النحاة١،
أب آئيں " أسرى بعبده" كي طرف ، جب رب كائنات نے اسرى كا ذكر كيا تو فعل أسری جو لازم کے معنی میں تھا أس كو "حرف باء" كے ساتھ متعدي بنايا ،
أور "حرف باء" كے ساتھ متعدي بنانے كا مطلب يه ہوتا ہے كہ فاعل مفعول كے ساتھ فعل ميں شريك ہوتا ہے تو " أسرى بعبده" ميں فاعل " الله " ہے، مفعول " مصطفى" ہیں،
أور فعل " اسراء " ہے،
تو "حرف باء" كے ساتھ أسرى كو متعدي بناكر اس بات كي طرف اشارة كرديا كہ رب كائنات معراج كي رات مسجد حرام سے لے كر مسجد أقصی تك پورے سفر ميں  اپنے مصطفى كے ساتھ  أپنی شان بے مثل کے لائق شريك  تها ٢بلاتشييه وتمثيل،
أور " حرف باء" كے آئينے ميں مصطفى صلى الله عليه وسلم نے أپنے رب کی خاص قرب کی منازل کو طے کیا۔

لیکن بعض نے کہا أسری کے بعد ملائکہ کا لفظ محذوف ہے مطلب أصل میں ( أسرى ملائكته بعبده) ہے ، أور اس صورت میں اشتراک لازم نہیں آتا

متعدی فعل کو لازم کے معنی میں کیوں لیا؟

جب متعدی کو لازم کے معنی میں لایا جائے تو أس سے مقصود أس فعل میں مبالغہ و أہمیت کی طرف إشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔
إن فروق سے واضح ہوا کہ دونوں صورتوں میں اللہ رب العزت نے خاص راز و حقائق کی طرف اشارہ  کیا ہے نہ کہ بے فائدہ و لغو کلام فرمایا- العیاذ باللہ-

حوالہ:
١ ابن هشام ،مغني اللبيب عن كتب الاعاريب ، الباب الأول في تفسير المفردات و ذكر أحكامها ، الباء المفردة ، ص ١٠٧ .
٢_ ابن عاشور ، التحرير و التنوير ، سورة الاسرى ، الآية /١ .
الشيخ محمد بخيت المطيعي ، مفتي الديار المصرية سابقا ، الكلمات الطيبات في المأثور عن الإسراء و المعراج من الروايات ، الباب الأول الى المسجد الأقصى ، ص : ٢٦ .

سؤال نمبر 19 :

سیدنا صدیق أکبر رضی اللہ عنہ نے جب معراج کی تصدیق کی تو پوچھا کیا حضور صلی الله علیہ وسلم نے أیسا فرمایا؟ جب آپکو بتایا گیا کہ: ہاں حضور صلی الله علیہ وسلم نے أیسا فرمایا تو تب آپ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا: ( أنا أصدقه في خبر السماء /مینے أنکی تصدیق آسمانوں کی خبر میں کی ( تو اسراء کی تصدیق کرنے میں تأمل کیوں کریں) لہذا إسی تصدیق سے أنکا نام صدیق ہوگیا ( المستدرک علی الحاکم ، حدیث نمبر: 4458 ، إمام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح ہے)
یعنی کیا سیدنا صدیق أکبر رضی اللہ عنہ کے معاملے سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ؟

جواب:

اگرچہ إمام حاکم والی حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن اسکے دیگر توابع و شواہد موجود ہیں ،
سیدنا صدیق أکبر رضی اللہ عنہ کے معاملے سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب عقل و شریعت کا آپس میں ظاہری تعارض آجائے تو عقل کو شریعت کے تابع کردینا چاہیے ،
جو شریعت کہے أسکو مان لینا چاہیے إسی وجہ سے سیدنا صدیق أکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: أگر حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے تو میں تصدیق کرتا ہوں مطلب عقلی طور پہ جب تأمل ہوا تو أسکو فورا شریعت کے تابع کردیا۔
لہذا ہمارے لیے بھی اس میں یہ سبق ہے جب بھی کوئی شئے بظاہر عقل کے خلاف ہو تو ہمیں شریعت پر عمل کرنا چاہیے نہ کہ عقل پر.

سؤال نمںر 20 :

متفق علیہ حدیث میں ہے کہ جب پچاس نمازیں فرض ہوئیں تو حضرت موسی علیہ السلام نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے عرض کی: آپکی أمت اتنی نمازوں کو پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی ۔۔۔
إس حدیث کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم حضرت موسی علیہ السلام کے شاگرد ہوئے؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضور صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ علم ہوا؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی اُمت پہ اعتراض کیا؟

جواب:

إس متفق علیہ حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم حضرت موسی علیہ السلام کے شاگرد ہوئے کیونکہ یہ مشورہ تھا ،
أور مشورہ میں کوئی دوسرے کا شاگرد نہیں بن جاتا جیسے قرآن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین سے مشورے کا حکم دیا گیا ( وشاورهم في الأمر/ أن سے مشورہ کریں معاملات میں)- آل عمران ، 1٥٩ –
تو کیا ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی مشورہ کی بنیاد پہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا أستاذ سمجھ لیں- العیاذ باللہ-
لہذا جس طرح مشورہ دینے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین حضور صلی الله علیہ وسلم کے أستاذ نہیں کہلا سکتے إسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی أستاذ نہیں کہلا سکتے،
جس طرح مشورہ دینے سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کا علم حضور صلی الله علیہ وسلم کے علم سے زیادہ نہ ہوا تو إسی طرح مشورہ دینے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا علم بھی حضور صلی الله علیہ وسلم کے علم سے زیادہ نہ ہوا۔
رہی بات کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی اُمت پر اعتراض کیا أیسا نہیں بلکہ انہوں نے أپنی امت کی کمزوری کو بیان کیا ،
اور یہ لفظ بھی متفق علیہ حدیث ہی میں ہیں ، لہذا انہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی اُمت پر نہ اعتراض کیا اور نہ ہی أنکو کمزور کہا بلکہ أپنی امت کو کمزور کہا ،
أور اسی بنیاد پہ انہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے أمت محمدیہ کے لیے تخفیف کی درخواست کی لہذا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ فعل مبارک حضور صلی الله علیہ وسلم کی اُمت کے ساتھ أنکی محبت کی دلیل ہے نہ کہ اعتراض۔

سؤال نمبر 21 :

سفر اسراء و معراج کے وقت تو مسجد أقصی موجود ہی نہیں تھی جیسے کہ محدثین نے ذکر کیا ں، أور کتب تاریخ میں بھی آیا ہے کہ مسجد أقصی  ولید بن عبد الملک نے بنوائی تو پھر قرآن مسجد أقصی کا ذکر کیسے کررہا ہے؟

جواب: ...... جاری ہے

Comments

Popular posts from this blog