اسراء و معراج
تیسری قسط
تحریر مفتی محمد علی ابن طفیل الأزہری
سؤال نمبر 13:
أگر سفر اسراء و معراج کو اللہ رب العزت حضور صلی الله علیہ وسلم کا معجزہ ہی بنانا چاہتا تھا تو پھر وہ سفر دن کو کیوں نہیں کروایا تاکہ سبھی لوگ أس معجزہ کا براہ راست مشاہدہ کرتے أور کوئی جھٹلاتا بھی نہ،
لہذا رات کو سفر اسراء و معراج کروانا عقل میں آنے والی بات نہیں ، کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا پھر آگ ٹھندی ہوگی اس معجزے کا مشاہدہ پوری قوم نے کیا ،
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے سمندر پھٹ گیا أور راستہ بن گیا اس معجزہ کا مشاہدہ بھی پوری قوم نے کیا ،
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مردوں کو زندہ کیا اس معجزے کا مشاہدہ بھی أنکی قوم نے کیا لیکن اسراء و معراج کا مشاہدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے نہیں کیا ۔
جواب:
اللہ رب العزت سفر اسراء و معراج کو قیامت تک کا زندہ معجزہ بنانا چاہتا تھا جسکو إیمان بالغیب کہتے ہیں ، اس طرح تو حضور صلی الله علیہ وسلم کے بھی بہت سے معجزے قوم کے سامنے ہوئے جیسے چانڈ کا دو ٹکڑے ہوجانا ،
انگشت مبارک سے پانی کے چشموں کا بہنا ، بادلوں کا سایہ کرنا وغیرہ وغیرہ
لیکن سفر اسراء و معراج رات کو کروانے میں دو وجہیے تھیں:
پہلی وجہ:
إس عظیم معجزہ کو حضور صلی الله علیہ وسلم کی صداقت پر دلیل بنانا تھا وہ یوں کہ جب رات کو آپکو سیر کروائی گئی تو صبح کفار مکہ نے مسجد أقصی اور راستے میں جانے و آنے والے قافلوں کو بارے میں پوچھا تو جیسے ہی حضور صلی الله علیہ وسلم نے خبر دی أور علامات بتائیں تو وہ ساری کی ساری صحیح تھیں تو اس سے یہ دلیل قائم ہوگی کہ ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو وحی کے بارے میں خبر دیتا ہے وہ بھی أیسے ہی صداقت پر مبنی ہے جیسے مسجد اقصی اور أسکی طرف جانے و آنے والے قافلوں کی خبر صدق پر مبنی ہے۔
دوسری وجہ:
إیمان بالغیب تھا ، وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے أنکے إیمان کا امتحان تھا کہ رات کو اتنا عظیم سفر مدت قصیرہ میں کروایا گیا تاکہ جب صبح أنکو أنکا نبی صلی اللہ علیہ وسلم خبر دیں تو وہ بغیر کسی تجسس کے أس پر إیمان لاتے ہیں یا نہیں؟
یہی وجہ بنی کہ سیدنا صدیق أکبر رضی اللہ عنہ نے آپکی تصدیق کردی بغیر کوئی دلیل مانگے ، أور جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے وہ بعض إنکار کر بیٹھے جس سے وہ مرتد قرار پائے۔
یہ دو حکمتیں تھیں رات کو سفر اسراء و معراج کروانے میں تاکہ إیمان بالغیب اور نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر دلیل قائم ہوجائے۔
سؤال نمبر 14 :
( الذي باركنا حوله/ ہم نے أسکا ارد گرد بابرکت بنادیا) اس برکت سے کیا مراد ہے؟
جواب:
برکت دنیوی و دینی ، برکت دنیوی ثمرات وغیرہ جس سے کفار و مسلمان دونوں فائدہ اٹھاتے رہے ، أور برکت دینی جیسے حضور صلی الله علیہ وسلم أور دیگر انبیاء وہاں حاضر ہوئے لہذا ( بارکنا حوله ) میں برکت دنیوی و دینی دونوں مراد ہیں ، مسلمان برکت دینی و دنیوی دونوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور کفار صرف برکت دنیوی سے۔
سؤال نمبر 15 :
سب انبیائے کرام کا وصال ہوچکا تھا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے أنکی جماعت کیسے کروائے؟ کیونکہ انبیائے کرام حالت برزخ میں تھے اور حضور صلی الله علیہ وسلم حالت حیات دنیوی میں تھے۔
جواب:
اللہ رب العزت نے اس سفر کے ذکر کی ابتداء ( سبحان) لفظ سے کی ، جس میں إشارہ ہے کہ سفر اسراء و معراج کو بشری قانون کے تحت نہیں بلکہ قدرت الٰہی کے قانون کے تحت دیکھنا ہوگا ،
یہ سارے سؤال بشری قانون پر وارد ہوتے ہیں قدرت الٰہی کے قانون پر نہیں ،یہ أیسے ہی ہے جیسے چار پرندوں کو ذبح کے بعد ابراہیم علیہ السلام کی نداء پر زندہ کردیا أور بالکل ظاہری حیات عطاء کردی ،
یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نداء پر مردوں کو زندہ کردیا ،
یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت عزیر علیہ السلام کی نگاہ مبارک کی برکت سے أنکی سواری کو حیات بخش دی تو جب ان انبیائے کرام کے لیے مختلف اشیاء کو ظاہری حیات عطاء کردی گئی تو أپنے محبوب کریم علیہ السلام کے لیے انبیائے کرام کو ظاہری حیات عطاء کرنا کونسا مشکل کام تھا یا قانون قدرت سے باہر تھا؟
لہذا انبیائے کرام علیہم السلام کو ظاہری حیات عطاء کی گئی تو انہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز أدا کی۔
سؤال نمبر 16 :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ أور شراب دونوں پیش کرنے میں کیا حکمت تھی ؟
جواب:
دودھ أور شراب پیش کرکے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا کہ آپ دونوں میں سے جو چاہیں پیں تو آپ نے دودھ کو اختیار کیا تو اس میں حکمت یہ تھی کہ ملائکہ کو دکھانا تھا کہ ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کئی قسم کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی فطرت سلیمہ پر قائم ہیں یعنی آپ پر کسی قسم کی غنودگی و مجذوبیت کی کیفیت طاری نہیں ہوئی ۔
سؤال نمبر 17 :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات بہت سے لوگوں کو گناہ کبیرہ کے سبب عذاب میں مبتلا دیکھا حالانکہ ابھی تک آپکی شریعت میں أحکام نازل نہیں ہوئے تھے؟
جواب:
قلت:
ابتدائے نبوت میں بھی ںہت سے أحکام فرض ہوچکے تھے حتی کہ بعض روایات میں أور علمائے کرام کے اقوال سے ثابت ہے کہ نماز بھی فرض ہوچکی تھی ،لیکن پانچ نمازیں معراج کی رات ہی فرض ہوئیں۔
سفر معراج میں جو لوگ عذاب میں مبتلاء تھے وہ پہلی أمتوں کے تھے ،
أور جن أحادیث میں ذکر ہے کہ (من أمتک/ آپکی أمت میں سے) اس میں دو ہی احتمال ہیں :
پہلا احتمال: أمت سے مراد امت دعوت ہے مطلب کفار کیونکہ کفار کو بھی شرعی احکامات چھوڑنے کا بھی عذاب ہوگا جیسے کفر پر ہوگا۔
دوسرا احتمال: وہ مسلمان ہیں لیکن وہ متمثل صورتیں تھیں مطلب ابھی أنکا وقوع نہیں ہوا لیکن پہلے ہی اللہ رب العزت نے أنکو دکھادیا جیسے حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مینے فتح ہونے والی زمینوں کو بھی دیکھ لیا ، أور میںنے فلاں لشکر کے سپاہیوں کو بھی دیکھ لیا وغیرہ وغیرہ۔واللہ أعلم بالحقیقۃ۔
أور عذاب کے جو أسباب بیان کیے گئے وہ تمام شریعت کے مسلمات میں سے ہیں یعنی سب شریعتوں میں حرام ہیں جیسے سود، زنا ، فتنے پیدا کرنے والے لوگ وغیرہ وغیرہ
لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کا دکھانے سے مراد یہ تھی کہ آپ کی خبر کو خبر عینی بنایا جائے یعنی غیبیات سے نکال کر حسیات کی طرف لایا جائے اب جو بھی حضور صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں خبر دی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتبار سے غیب نہیں تھا بلکہ آپ أپنی آنکھو سے أسکا مشاہدہ کرچکے تھے لہذا إس میں الحاد پرست لوگوں کا رد ہے۔
جس طرح وہ سائنس کی بات کو حسی طور پہ لیتے ہیں إسی طرح حضور صلی الله علیہ وسلم کا ہمیں خبر دینا بھی حسی ہے کیونکہ آپ خود أپنی مبارک آنکھو سے أن سب کا مشاہدہ کرچکے تھے حالانکہ اسکا بھی جو غیب الغیب تھا۔
أب جو کہے کہ جسکو تم نے دیکھا ہی نہیں تو تم أس ہر إیمان کیوں لاتے ہو؟
ہم کہیں گے جس نے دیکھا ہے أسکے کہنے پہ إیمان لائے ہیں جیسے تم سائنس کے کہنے سے ہر تحقیق کو مان لیتے ہو۔
سؤال نمبر 18 :۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔
Comments
Post a Comment