سفر اسراء و معراج
پانچویں قسط:
تحریر ابن طفیل الأزہری
سؤال نمبر 21 :
سفر اسراء و معراج کے وقت تو مسجد أقصی موجود ہی نہیں تھی جیسے کہ محدثین نے ذکر کیا ، أور کتب تاریخ میں بھی آیا ہے کہ مسجد أقصی ولید بن عبد الملک نے بنوائی تو پھر قرآن مسجد أقصی کا ذکر کیسے کررہا ہے؟
جواب:
تمام محدثین و فقہاء و متکلمین اور تمام مسلمین اس بات پہ متفق ہیں کہ مسجد أقصی سے مراد بیت المقدس ہے ،
یعنی مسجد أقصی کے مفہوم پر إجماع قطعی ہے جو معلوم من الدین بالضرورہ ہے ،
جو یہاں مسجد أقصی سے مراد بیت المعمور یا بیت المقدس کے علاوہ کوئی أور جگہ مراد لے وہ صریح کافر ہے ، أور أسکو کافر نہ کہنے والا بھی کافر ہے کیونکہ وہ قرآن کی صریح نص کی نفی کررہا ہے ،
أور امام رازی نے تفسیر کبیر میں اتفاق ذکر کیا ہے کہ یہاں مسجد أقصی سے مراد بیت المقدس ہے ، یہی بات إمام طبری، سمرقندی و قسطلانی و زمخشری اور دیگر محدثین و مفسرین نے بھی کی یعنی مسجد أقصی سے مراد بیت المقدس ہے ،
أب سؤال یہ ہے کہ مسجد أقصی پھر کیوں کہا ؟
إس لیے کہ بیت المقدس میں ایک خاص جگہ تھی عبادت کی ، أور أس عبادت کی جگہ کا اعتبار کرتے ہوئے أسکو مسجد أقصی کے نام سے تعبیر کیا ،
أور وہ معروف تھی جیسے مکہ مکرمہ میں عبادت کی جگہ خاص ہے جسکو مسجد حرام کہا گیا تو معراج کے وقت تو مسجد حرام کی بھی عمارت نہ تھی کیونکہ أسکی دیواریں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں بنی ہیں تو کیا منکرین حدیث مسجد حرام کا بھی إنکار کریں گے؟
لہذا جب قرآن نے أہل مکہ کے سامنے مسجد حرام و مسجد أقصی کا نام لیا تو یہ بات دلیل ہے کہ أنکے ہاں یہ نام لینے سے کسی معروف جگہ کا ہی تصور آتا تھا ،
أگر یہ مجھول جگہ ہوتیں تو وہ پہلا سؤال یہ کرتے کہ مسجد أقصی کونسی ہے؟
أنکا مسجد أقصی کے متعلق سؤال نہ کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نام کسی معروف جگہ پہ دلالت کرتا تھا اور وہ ہے بیت المقدس .
ولید بن عبد الملک نے مسجد أقصی تعمیر نہیں کروائی بلکہ أسکی ترمیم کروائی أور قبہ صخرہ جسکو آج کل ہم تصاویر میں دیکھتے ہیں وہ بنوایا لہذا تعمیر أور ترمیم میں فرق ہوتا ہے.
أور أگر تعمیر بھی کروائی ہے تو کسی شئے کے وجود و عمارت میں فرق ہوتا ہے معقول سی بات ہے کہ بعض أوقات وہ جگہ موجود ہوتی ہے لیکن أسکی عمارت نہیں ہوتی جیسے کوئی مسجد کے لیے جگہ مختص کرتا ہے تو پہلے مسجد ہوگی تو عمارت بنے گی نہ کہ جب عمارت بنے تبھی أسکو مسجد کہا جائے گا جیسے مسجد حرام کو بھی بعد میں تعمیر کیا گیا تو کیا کوئی مسجد حرام کا إنکار کرے گا؟
لہذا مسجد أقصی بھی موجود تھی کیونکہ کسی شئے کے تعمیر کروانے سے یہ ہر گز مراد نہیں ہوتا کہ وہ عمارت سے پہلے شئے موجود نہیں تھی ،
لہذا قرآن نے جو فرمایا ( من المسجد الحرام إلی المسجد الأقصی) یہ بالکل صحیح ہے.
رہی بات جو شیعہ کی کتب میں مسجد أقصی سے مراد بیت المعمور لیا گیا ہے وہ روایات مردودہ ہے ہیں ، یا أسکو لغوی معنی پہ محمول کیا جائے گا ،
لیکن أن روایات سے قرآن نے جس مسجد أقصی کا ذکر کیا ہے أسکی نفی نہیں ہوتی کیونکہ ایک اعتبار سے قرآن بھی تاریخی خبر دے رہا ہے اور باقی کتب بھی تو لہذا کونسی کتاب ہے جو ثقاہت میں قرآن مجید کے مساوی ہو؟
سؤال نمبر 22 :
جب قرآن نے ( أسری ) کا لفظ فرمادیا تو پھر ( لیلا) کیوں فرمایا ؟ حالانکہ ( أسری) تو ہوتی ہی رات کو ہے تو کیا یہ قرآن میں بے فائدہ تکرار نہیں؟
جواب:
قرآن نے جو ( لیلا) فرمایا ہے أس سے مراد یہ بتانا نہیں تھا کہ سفر رات کو ہوا
بلکہ أس سفر کی مدت بتانا مقصود تھا یعنی رات کے بعض حصے میں یہ سفر ہوا ،
لہذا ( لیلا) سفر کی مدت کے لیے ہے نہ کہ دن کے مقابلے میں ،
أور اسکی تائید قراءت عبد اللہ أور حذیفہ رضی اللہ عنہما سے بھی ہوتی ہے جسکو إمام زمخشری نے أپنی تفسیر کشاف میں نقل کیا ہے کیونکہ وہ ( من اللیل) پڑھتے تھے یعنی رات کا بعض حصہ،
جیسے قرآن ہی میں ہے ( ومن اللیل فتهجد به) تو یہاں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ رات کے کچھ حصے میں تہجد ہوتی ہے حالانکہ تھجد تو رات کو ہی ہوتی ہے تو جیسے إس آیت میں تکرار نہیں ویسے ہی آیت اسراء میں بھی تکرار نہیں.
سؤال نمبر 23 :
جب سائنس کہتی ہے کہ آسمان ایک فضا ہے تو پھر فضا کے دروازے کیسے کیونکہ معراج میں یہ ذکر ہے کہ ہر دروازہ کھولنے سے پہلے پوچھا گیا کہ کون ہو؟
تو دروازے تو کسی عمارت کے ہوتے ہیں نہ کہ فضاء کے؟
جواب:
سائنس کا یہ نظریہ قرآن کے بالکل مخالف ہے کیونکہ قرآن فرماتا ہے کہ آسمان ایک مضبوط عمارت ہے،
أور أسکے دروازے بھی ہیں جیسے کہ درج ذیل آیات مبارکہ میں ہے:
"أفلم ينظروا إلى السماء فوقهم كيف بنيناها وزيناها../ کیا أنہوں نے أپنے اوپر بنے ہوئے آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے أسکو کیسے بنایا اور أسکو مزین کیا ) القاف: 6 .
یہ آیت واضح کررہی ہے کہ آسمان فضا نہیں بلکہ ایک مضبوط عمارت ہے اور بھی قرآن و أحادیث میں بہت سی آیات ہیں جو اس نظریے پہ دلالت کرتی ہیں.
دروازوں کا ذکر کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا:
" إن الذين كذبوا بآياتنا واستكبروا عنها لا تفتح لهم أبواب السماء/ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور أن سے سرتابی کی أنکے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولیں جائیں گے) الأعراف : 40 .
لہذا إس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آسمان عمارت بھی ہے أور أسکے دروازے بھی ہیں ۔
أب سؤال یہ ہے کہ قرآن مجید کی مانیں یا سائنس کی؟
عقلی بات ہے کہ سائنس نے بھی خبر دی اور قرآن و أحادیث نے بھی خبر دی ، ہیں دونوں خبر لیکن سائنس کی خبر مفروضے پر قائم ہے أور قرآن و أحادیث کی خبر حیقیقت پر تو معقول شخص قرآن و أحادیث کی خبر کو مانے گا نہ کہ مفروضوں پر مبنی خبر جو آئے روز بدلتی رہتی ہے أسکو مانے۔
دوسری بات وہاں سائنس کے آلات أپنی اپروچ کے مطابق تحقیق پیش کررہے ہیں
اور معراج میں خود حضور صلی الله علیہ وسلم دیکھ کر بتارہے ہیں
تو لہذا حسی طور پہ دیکھی ہوئی چیز زیادہ قابل اعتبار ہے تو إس وجہ سے بھی معقول شخص حضور صلی الله علیہ وسلم کی بات کو مانے گا کیونکہ انہوں نے أپنی آنکھو سے دیکھا،
أور سائنٹسٹ نے آلات کے مفروضوں کی روشنی میں بتایا خود نہیں دیکھا،
لہذا عقلی اعتبار سے بھی قرآن و أحادیث کا ہی نظریہ مانا جائے گا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آسمان فضا نہیں بلکہ ایک مضبوط عمارت پر مبنی قدرت کا حسین شاہکار ہے أور أسکے دروازے بھی ہیں تو لہذا جس طرح معراج کی أحادیث میں بتایا گیا وہ عین عقل کے موافق ہے۔
أور مسلمانوں کے لیے سیدنا صدیق أکبر کا معاملہ بطور اتباعی نمونہ کے کافی ہے کہ انہوں نے عقل کو چھوڑ کر حضور صلی الله علیہ وسلم کی بات کو مانا کیونکہ ہماری عقل محدود ہوسکتی ہے لیکن انبیائے کرام علیہم السلام کا طبقہ وہ ہوتا ہے جنکی عقول کو کمال حاصل ہوتا ہے لہذا ہمیں سائنس کا مکلف نہیں بنایا گیا بلکہ قرآن و أحادیث کا بنایا گیا ہے تو ہم وحی الٰہی کی ہی بات پر إیمان لائیں گے.
سؤال نمبر 24 : چاند آسماں دنیا پر ہے تو پھر چاند پر جانے والوں کو کوئی دروازہ کیوں نہ ملا؟
جواب ۔۔۔۔۔ جاری ہے
۔۔
Comments
Post a Comment