آذان کے وقت کھانا
تحریر ابن طفیل الأزہری
كيا أذان كے وقت كهانا جائز ہے ؟
جواب :
اس مسئلہ میں محل اتفاق:
فقہاء كا اتفاق ہے كہ طلوع فجر ثانی كے آخری حصہ يعني طلوع شمس سے پہلے كھانا ممنوع ہے.
محل اختلاف:
فقہائے کرام کے ہاں اختلاف طلوع فجر ثانی كے أول وقت ميں ہے ،
إس ميں فقهاء كرام كے دو مذہب ہیںں جنكا ذكر درج ذيل ميں كيا جارہا ہے:
پہلا مذہب:
جمہور فقہاء كا مذہب ہے بشمول أئمہ أربعہ ( إمام اعظم أبو حنیفہ ، إمام أہل المدینۃ مالک، إمام مصر شافعی ، إمام مسند أحمد ) كہ طلوع فجر ثانی كے أول وقت سے ہي كهانا ممنوع ہے۔
دوسرا مذہب:
طلوع فجر كے أول وقت ميں كهانا جائز ہے ، یہ راۓ شاذ ہے ۔
یہ مذہب کے فقہاء فرماتے ہیں:
حديث ميں جو طلوع فجر كا ذكر ہے وه أخري وقت مراد ہے يعني طلوع شمس سے كچھ دير پہلے ، یہ روایت حضرت حذيفہ، مسروق أور اسحاق سے ہے.
مختار مذہب ( جس مذہب پر عمل ہے) :
جمہور فقہائے کرام كا مذہب مختار ہے يعني طلوع فجر ثانی كے شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے کھانا پینا بند کردینا چاہیے درج ذيل دلائل كي وجہ سے يہ مذہب مختار ہے:
پہلی دليل:
مذهب جمہور نے احادیث سے حظر (ممانعت) کا استدلال کیا ہے،
أور دوسرے مذہب نے اباحت پر
لہذا جب حظر أور اباحت ميں تعارض آجائے تو حظر يعني ممانعت والي دليل پر عمل كيا جاتا ہے دو سبب كي وجہ سے:
ايك احتياط ، أور دوسرا :خروج عن الخلاف كي وجہ سے.
دوسری دليل:
الله تعالی نے فرمايا:
" حتى يتبين لكم الخيط الأبيض " [ البقرہ: 187 ]
يعني طلوع فجر ثانی كے واضح ہونے سے پہلے ہي كهانا پينا بند كردو جيسے إمام جصاص نے لفظ حتى كي وضاحت كي ہے.
( تفسیر أحکام القرآن للجصاص ، إسی آیت کی تفسیر دیکھیں)
پانچويں دليل:
إمام بخاري نے باب باندہا ہے:
"باب الأذان بعد الفجر"
إس باب ميں إمام بخاري وه حديث لائے ہيں جس ميں حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمايا:جب ابن أم مكتوم أذان دیں تو كهانا چھوڑدو.
لہذا إمام بخاری کا مذہب بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ آذان کے وقت کھانا جائز نہیں.
ہم انہیں دلائل پر اكتفا كرتۓ ہیں.
آج کے دور میں حکم:
جمہور فقہائے کرام كے نزديك طلوع فجر ثانی كے أول وقت سے كهانا بند كردينا چاہیے لہذا أذان كے وقت كهانا جائز نہيں ،
كيونكہ آج كے دور ميں رمضان المبارک میں أذان طلوع فجر كے اول وقت ميں ہي دي جاتي ہے ، تو آج كا یہ عرف ہوا أور قاعدہ فقہیہ ہے:
"الثابت بالعرف كالثابت بالنص" / عرف سے ثابت چیز نص سے ثابت شدہ چیز کی طرح ہوتی ہے.
اور اذان فجر کا وقت بھی طلوع فجر ثانی ہے تو لہذا کھانا جائز نہیں ،
بلکہ آذان سے کچھ وقت پہلے کھانا بند کردینا چاہیے جیسے إمام جصاص نے تفسیر" أحکام القرآن" میں لفظ" حتی" کا معنی بیان کیا.
حتی کہ إمام نووی فرماتے ہیں:
أن من طلع الفجر وفي فيه طعام فليفظه ، ويتم صومه ، فإن ابتلعه بعد علمه بالفجر بطل صومه وهذا لا خلاف فيه.
ترجمہ:
بے شک جسکے منہ میں کھانا ہو أور اسی دوران فجر ( ثانی) طلوع ہوجائے تو أس کھانے کو ( منہ سے نکال کر) پھینک دے ، أگر وہ طلوع فجر کے بارے میں جانتا ہو پھر بھی ( منہ میں موجود کھانا) حلق سے نیچے جوف تک لے جائے تو أسکا روزہ باطل ہو جائے گا أور اس مسئلہ میں اختلاف نہیں ہے .
قارئینِ کرام سے گذارش ہے کہ رمضان المبارک سال بعد آتا ہے لہذا احتیاط کریں یہ نہ ہوکہ آذان کے وقت کھانا آپکے روزے کو ضائع کردے.
حوالہ جات:
عمدۃ القاری للعینی ، باب آذان الأعمی إذا کان له من يخبره ، 129/5.
مرقاۃ المفاتیح للملا علی قاری ، باب فی مسائل متفرقہ من کتاب الصوم ، حدیث نمبر: 1988 ۔
المجموع شرح مہذب للنووی ، باب مواقیت الصلاۃ ،45/3 ، مذاہب العلماء فی نیۃ الصوم ، 311/6 .
المغنی لابن قدامہ ، کتاب الصیام ، 104/3 .
Comments
Post a Comment