إسلامی ریاست میں أقلیتوں کے فرائض و ذمہ داریاں شریعت إسلامیہ ہ پاکستانی قانون میں

سؤال:

جس نے بھی أردو أقلیتوں پر کتاب لکھی أور بات کی سب نے أنکے حقوق کو بیان کیا لیکن کسی نے یہ بیان نہیں کیا:
إسلامی ملک میں أقلیتوں کے واجبات و ذمہ داریاں کیا ہیں؟

آپ أنکے واجبات و ذمہ داریاں بیان فرمادیں۔

جواب:

ہمارے معاشرے میں ہر مسئلے میں جو انخلاء پیدا ہوتا ہے أسکی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم صرف وہ بات کرتے ہیں جسکا ذوق ہمارے فکری و علمی مزاج میں ہوتا ہے أور أس بات کو زیر بحث نہیں لاتے جو ہمارے علمی و فکری مزاج میں نہیں آتی ،
أگر أس پہ ہم أپنی قلم کو جنبش بھی دیں تو صرف وہ قلم تنقیدی پہلو ہی لکھ پاتی ہے إیجابیات و خوبیاں لکھنے کی طاقت أس میں نہیں ہوتی ،
یہی وجہ بنی کہ أردو میں جتنا لٹریچر لکھا گیا أس میں زیادہ تر صرف أقلیتوں کے حقوق بیان کیے گے أنکے فرائض و ذمہ داریوں کی طرف توجہ نہیں دی گئی جس سے ہمارے معاشرے میں إیک انخلاء سی صورتحال پیدا ہوگئی.
حضور صلی الله علیہ وسلم نے أقلیتوں کے حقوق و فرائض و ذمہ داریوں کے متعلق مفصل وضاحت فرمائی ، ہم أن میں سے صرف درج ذیل میں إیک حدیث بیان کرتے ہیں:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" ألا من ظلم معاهدا ، أو انتقصه ، أو كلفه فوق طاقته ، أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفس فأنا حجيجه يوم القيامة "

( سنن أبي داود ، باب في تعشير أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات ، حديث نمبر: 3052 ، 3/170 ، إمام عجلونی فرماتے ہیں : اس حدیث کی سند حسن ہے – کشف الخفاء ، حدیث نمبر: 2529 ، 2/311 -)

ترجمہ:

أگاہ رہو! جس نے بھی أیسے شخص( أقلیت ) کے ساتھ جس سے إسلامی ملک نے أسکی حفاظت کا عہد کیا أس پر ظلم کیا ، یا أسکی تنقیص ( سب و شتم) کیا، یا أسکو أسکی طاقت سے زیادہ مکلف بنایا ، یا بغیر أسکی رضا مندی سے أسکی کسی بھی شئے کو لیا تو پس میں قیامت کے دن أسکے مقابلے میں ( أقلیت ) کے ساتھ کھڑا ہونگا ( أسکو انصاف دلانے کے لیے)۔

إس حدیث میں أقلیتوں کے متعلق درج ذیل أحکام بیان کیا گیا:
نمبر 1 : أنکے حقوق کی حفاظت.
نمبر 2 : أنکی ذمہ داریاں.
نمبر 3 : أنکے جان و مال کی حفاظت.
نمبر 4 : جو أقلیت کے ساتھ ظلم کرے گا قیامت کے دن حضور صلی الله علیہ وسلم أس ظالم کا ساتھ نہیں دیں گے چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو.

قارئینِ کرام!

آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب پیرائے میں أقلیتوں کے حقوق و فرائض و ذمہ داریوں أور خود أنکی حفاظت کی بات کی.

لہذا حدیث ہمیں إس طرف دعوت دے رہی ہے کہ أقلیتوں کی جب بھی بات کرو أنکے حقوق و فرائض و ذمہ داریوں کو إیک ساتھ بیان کرو تاکہ ملک میں توازن برقرار رہے سو ہم شفیق اللہ أمینی کے پی أیچ ڈی تھیسز" واجبات غیر المسلمین و حقوقھم فی الدولۃ الاسلامیۃ – " سے  درج ذیل میں أقلیتوں و غیر مسلموں کےفرائض و ذمہ داریاں تلخیصا و تسہیلا مع الزیادات بیان کرتے ہیں:

پہلا فرض: وطن کی حفاظت

کسی بھی إسلامی ملک میں أقلیتوں کی پہلی ذمہ داری أس وطن کی حفاظت ہوتی ہے ، أس وطن کی سرحدوں وأسرار کی حفاظت کرنا جیسے کہ میثاق مدینہ ( وہ عہد جو مسلمانوں و أقلیتوں کے درمیان ہوا) أس میں یہ واضح تھا کہ مسلمان و یہودی و عیسائی مدینہ منورہ کی حفاظت کریں گے کیونکہ یہ أنکا وطن ہے لہذا کوئی بھی أپنے ملک و وطن کی جاسوسی نہیں کرے گا ، أور نہ ہی أس پہ حملہ کرنے والے کا ساتھ دے گا ،
أور تمام مسلمین و أقلیت وطن و ملک کے لحاظ سے ایک أمت ہیں ، کوئی بھی إس ملک کے دشمن کا ساتھ نہیں دے گا ، أس چارٹر کی پہلی شق ہی یہ تھی:

" هذا كتاب من محمد النبي رسول الله بين المؤمنين والمسلمين من قريش وأهل يثرب ، ومن تبعهم فلحق بهم وجاهد معهم أنهم أمة واحدة من دون الناس "

( السيرة النبوية لابن هشام ، ص: 143-145 ، جلد: 2 )

ترجمہ:

یہ کتاب ( معاہدہ) محمد نبی رسول اللہ کی طرف سے ہے قریش و یثرب میں سے مؤمنین و مسلمین کے درمیان ، أور ہر أس شخص کے درمیان جس نے انکی پیروی کرکے أنکے ساتھ ملا أور جہاد کیا  ،بے شک وہ سب ( أب ) إیک أمت ہیں لوگوں کے علاوہ .

أور إسی معاہدہ کی شق نمبر 25 پہ فرمایا :

" وأن يهود بني عوف أمة مع المؤمنين "

ترجمہ:

أور بے شک یہود بنی عوف مؤمنین کے ساتھ  أمت ہیں ( وطنی طور پہ  إیمانی طور پہ نہیں)۔

جب أقلیت و مسلمان إیک إسلامی ملک میں بطور ہم وطن ہونے کے إیک أمت تصور ہوتے ہیں تو أس ملک کی حفاظت سب پر فرض ہوتی ہے ، أور أنکی ذمہ داریوں میں وطن کی حفاظت کو شمار کیا جاتا ہے بغیر مذہبی تفریق کے.
أور پاکستانی قانون کے آرٹیکل نمبر 5 میں بھی یہی ہے کہ وطن کی حفاظت تمام لوگوں پر فرض ہے .

أقلیتوں میں جو بھی ملک سے غداری کرے گا أسکو سخت سے سخت سزا دی جائے گی جیسے حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہود مدینہ کے ساتھ کیا ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے أن یہود کو جو سزا دی وہ أنکے دین کی وجہ سے نہیں جیسے ملحدین تہمت لگاتے ہیں بلکہ وطن سے غداری کی وجہ سے دی ،
أور ہر ملکی قانون میں غدار کی سزاء سخت سے سخت ہے
أور یہی پاکستانی قانون کے آرٹیکل 5 میں بھی ہے کہ جو بھی ملک کے ساتھ یا أسکے قانون کے ساتھ بغاوت کرے گا أسکوسخت سے سخت سزا دی جائے گی ،
أور پاکستان پینل کوڈ بائی محمد مظہر حسن نظامی لاہور سیکشن 121 ، 122 ، 123 ، 124 ، 125 ، 126 میں غداری کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں أور أسکے مرتکب شخص کے متعلق سزاؤں کی مزید وضاحت مذکور ہے.
أور إسکی مثال حضور صلی الله علیہ وسلم کی سیرت سے بھی ملتی ہے جیسے یہود مدینہ کے قبیلہ بنی قینقاع و بنی نضیر کو جلا وطن کیا ، أور بنی قریظہ کو سخت سے سخت سزا سنائی کیونکہ أنہوں نے وطن کے ساتھ غداری کی لہذا أقلیتوں أولین ذمہ داری وطن کی حفاظت ہے جو إس سے روگردانی کرے گا أسکو بغیر کسی قسم کی نرمی کیے سخت سے سخت سزا دی جائے گی .

دوسرا فرض: إسلامی شعائر و أحکام کا احترام کرنا

أقلیتوں کا دوسرا بڑا فرض و ذمہ داری یہ ہے کہ وہ إسلامی شعائر کا احترام کریں ، أنکو ہر گز یہ إجازت نہیں ہوتی کہ وہ إسلام کی حرام کردہ چیزیں جیسے شراب و خنزیر کو إعلانیہ مسلمانوں کے سامنے پیں کھائیں یا بیچیں بلکہ وہ إسکو صرف أپنے خاص علاقے تک محدود رکھیں گے ،
أور مسلمانوں کے علاقوں میں أیسی سرگرمیوں کی ہر گز إجازت نہیں دی جاتی لہذا وہ أپنے إس فرض سے روگردانی نہ کریں ،
أور عبادات و نکاح و طلاق وغیرہ أنکو أپنے مذہب کے مطابق کرنے کی آزادی ہوگی لیکن عبادات کو سب کے سامنے کرنا یا أسکا پرچار کرنا إسلام إسکی إجازت نہیں دیتا بلکہ وہ أپنی مخصوص عبادت گاہوں میں جیسے چاہیں أنکو کریں .
جہاں تک تعلق ہے اقتصادیات کا تو أس میں أنکے لیے وہی کچھ جائز ہے جو مسلمانوں کے لیے ہے ،
أور ہر وہ چیز حرام ہے جو مسلمانوں پر حرام کی گئی ہے لہذا اقتصادیات میں کوئی تفریق نہیں کیونکہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے نجران کی أقلیتوں کو لکھا کہ وہ سود نہیں لیں گے ،
أور سود اقتصادیات میں آتا ہے لہذا مسلمانوں پر حرام ہے تو أقلیتوں پر بھی حرام ہے.
أور جرائم کی سزاء بھی دی جائے گی جیسے مسلمانوں کو دی جاتی ہے سوائے چند إیک إسلامی سزائیں چھوڑ کر جیسے شراب پینے کی سزاء وغیرہ ہے، لیکن إمام حسن من الحنفیہ وہ فرماتے ہیں کہ نشہ چڑھنے کی وجہ سے شراب والی حد بھی لگے گی.
أور حد زنا ، چوری ، قصاص وغیرہ میں مسلمان و أقلیت سب برابر ہیں .

( الخراج لأبی یوسف ، ص: 85 ، العلاقات الدولیۃ فی الإسلام لأبی زہرہ ، ص: 63 ، کتب فقہیہ میں ان سزاؤں کے چپٹرز میں تفصیل پڑھ سکتے ہیں )

پاکستانی قانون میں ان جرائم کی سزاؤں کے متعلق پاکستان پینل کوڈ بائی محمد مظہر حسن نظامی لاہور سیکشن 300 ، 3002 ، 304 ، 377 ، 378 ، 379 ، 382 ، 391 ، 392 وغیرہ کا مطالعہ فرمائیں أور مقدس ہستیوں کے بارے میں تعزیرات سیکشن 298 الف ، أور نیشنل أیکشن پلان کے تحت بھی وضاحت آتی ہے .
أور پاکستانی قانون میں إسلامی حدود کا نفاذ نہیں ہے یہی وجہ ہے إس میں سزا یا تو قید ہے یا جرمانہ ،
اللہ کے حضور دعاء ہے کہ ہمارے پاکستان میں إسلامی سزاؤں کا نفاذ ہوجائے جیسے برونائی وغیرہ میں ہوچکا ہے .
رہی بات گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تو وہ شریعت إسلامیہ میں بھی واجب القتل ہے أور پاکستانی قانون میں بھی أسکی سزا موت جیسے کہ 295 سی میں ہے.

لہذا أقلیت میں سے جو بھی إسلامی شعائر کی توہین کرے أسکو سخت سے سزا دی جائے کیونکہ إسلامی شعائر کا احترام أنکے فرائض و ذمہ داریوں میں شامل ہے.

تیسرا فرض: ملکی ترقی کے لیے کام کرنا

أقلیتوں کے فرائض میں سے تیسرا فرض و ذمہ داری ملکی ترقی کے لیے کام کرنا ہے چاہے وہ ترقی تعلیمی اعتبار سے ہو یا معاشی اعتبار سے لیکن أنکو ملکی عہدوں پہ فائز کرنے میں فقہائے کرام میں اختلاف ہے:

پہلی رائے:

أنکو ملکی عہدے نہیں دیے جائیں گے یہ مذاہب أربعہ کا معتمد قول ہے ،
أور أنکے دلائل قرآن کی وہ آیات ہیں جس میں مسلمانوں کو منع فرمایا گیا ہے کہ أنکو أپنے أیسے معاملات میں شامل نہ کریں جن کے زریعے مسلمانوں پر حکمرانی آتی ہو کسی بھی منسٹری کے تحت.

دوسری رائے:

وہ ملکی وزارتیں جنکا تعلق دین سے ہو أس پہ أنکو فائز نہیں کیا جائے گا جیسے أنکو ملک کا حاکم بنانا یا قاضی بنانا وغیرہ ،
أگر دین سے تعلق نہیں معاشیات وغیرہ سے ہے تو جائز ہے  یہ معاصرین علمائے کرام کی رائے ہے.
یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے بعض معاملات میں کفار پر اعتبار کیا جیسے چھے ہجری میں خزاعہ کے کچھ لوگوں پہ اعتبار کیا.

( فتح الباری شرح صحیح البخاری ، 5/338 )

أور بدر کے کفار قیدیوں کو انصار مسلمانوں کی اولاد کو پڑھانے پر اعتبار کیا تو لہذا یہ سکول کا عہدہ تھا ہماری زبان معاصر میں .

( المستدرک للحاکم ، حدیث نمبر: 2621 )

تیسری رائے:

نہایت ہی ضرورت کے تحت جائز ہے یہ بعض حنفیہ و شافعیہ وغیرہ کی رائے ہے.
یہ استدلال کرتے ہیں ضرورت کے قاعدے کے تحت.

( شرح فتح القدیر لابن ہمام ، 6/61 )

مختار رائے:

مختار رائے یہی ہے کہ أنکا خاص کوٹہ مقرر ہونا چاہیے جیسے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا:
أنکو کام سے ہٹانا گویا کہ أنکو أنکے دین سے روکنا ہے مطلب جب دین کی إجازت ہے تو جاب کی بھی إجازت ہے.
( سیرۃ عمر بن عبد العزیز لأبی محمد ابن عبد الحکم ، ص : 140 )
أور دیگر خلفاء بھی أقلیتوں پہ اعتبار کرتے آئے .

پاکستانی قانون میں بھی بلا امتیاز إجازت ہے جیسے کہ 1973  کے آئین آرٹیکل 18 میں اسکی وضاحت موجود ہے ۔
باقی بعض معاملات میں أقلیتوں کے حقوق کو مخصوص رکھا گیا ہے.
أور انکم  ٹیکسز کے لیے جو قانون 2001 میں بنایا گیا أس میں دین کی بنیاد پہ کوئی تفریق نہیں کی گئی.

چوتھا فرض: جزیہ و خراج أدا کرنا یا ٹیکسز

قرآن مجید و أحادیث صریح دلالت کرتی ہیں کہ أقلیتوں کو جزیہ و خراج أدا کرنا ہوتا ہے ، جزیہ کا مطلب أپنی حفاظت کے بدلے جو وہ أدا کرتے ہیں أسکو جزیہ کہتے ہیں ،
أور جو زمینی پیداوار پہ أدا کرتے أسکو خراج کہتے ہیں لہذا أگر إسلامی ملک میں یہ نافذ ہو تو أسکا أدا کرنا أن پر فرض ہوتا ہے. بعض صورتوں میں جزیہ و خراج ساقط بھی ہوجاتا ہے جسکی تفصیل کتب فقہیہ میں ہے.
لیکن موجودہ دور میں اسکی جگہ ٹیکسز نے لے لی ہے لہذا أنکا أدا کرنا أقلیتوں پر فرض ہے جیسے ہم پاکستانی قانون کو أوپر بیان کر آئے ہیں.

خاتمہ ( خلاصۂ کلام) :

شریعت إسلامیہ أور پاکستانی قانون میں أقلیتوں کے درج ذیل فرائض و ذمہ داریاں ہیں:
نمبر 1 : ملک کی حفاظت کرنا.
نمبر 2 : إسلامی شعائر کا احترام کرنا.
نمبر 3 : أپنی عبادات کو أپنے عبادت گاہوں تک محدود رکھنا .
نمبر 4 : أپنے عقائد کا پرچار نہیں کرسکتے.
نمبر 5 : اقتصادی و سزاؤں کے معاملات میں إسلامی أحکام کو فالو کرنا ہوگا لیکن پاکستانی قانون اس میں مختلف ہے کیونکہ وہ سزاؤں میں قید یا جرمانہ رکھتا ہے سوائے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے یا دیگر کچھ سزاؤں کے.
نمبر 6 : ملکی ترقی کے لیے کام کرنا ہوگا.
نمبر 7 : ملکی ٹیکسز کو أدا کرنا لازم ہے لیکن شریعت إسلامیہ میں جزیہ و خراج ہوتا تھا.

وصلى الله تعالى على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين .

Comments

Popular posts from this blog