نجائز قبضہ کی ہوئی زمین کے متعلق مختلف سؤالات کے جوابات

سؤالات:

کیا کہتے ہیں علماء شریعت اس مسئلہ میں کہ
کسی کی زمین پر اس کی مرضی یا اجازت کے بغیر فصل کاشت کرنا کیسا ہے؟
اگر کر ہی لی تو وہ رزق کھانا کیسا ہے؟؟
اگر زمین کا مالک تیار فصل کو نقصان پہنچا دے تو کیا وہ قصور وار ہو گا؟
اور اگر مالک زمین نے اطلاع عام دے رکھی ہو کہ میری زمین پر فصل کاشت مت کیجئے نقصان کے ذمہ دار ہم نہ ہونگے تو اس بابت کیا حکم ہے؟
اور اگر وہ زمین ریاست یا اس کے کسی محکمہ نے نقد کے عوض خرید لی ہو تو اس صورت کیا حکم ہے؟؟
اور بیچی گئی زمین پر کیا سابقہ مالک یا کوئی دوسرا کسی قسم کا دعوی رکھتا ہے کہ یہ پہلے تو میری زمین تھی نا۔۔۔۔

جوابات أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی):

زمین میں کوئی چیز کاشت کرنے کی چار صورتیں ہیں:
پہلی صورت : درخت کاشت کیے مطلب لگائے.
دوسری صورت: بلڈنگ وغیرہ بنائی.
تیسری صورت: زراعت کاشت کی اور زمین سے نکل آئی
چوتھی صورت: زراعت کاشت کی لیکن  باہر نہیں نلکی بلکہ بیج کی صورت میں موجود ہے۔
إن سب صورتوں کا حکم فقہائے کرام نے کتب ستہ میں وارد ہونے والی وہ أحادیث جس میں دوسروں کی زمین پہ ناجائز قبضہ کرنا أور پھر أسکو کاشت کرنا وغیرہ ہے سے استدلال کیا ہے،
أور خود إمام بخاری اس مسئلہ میں کچھ أبواب لائے ہیں لہذا ان احادیث سے درج ذیل أحکام مستنبط کیے ہیں:

- سب کا اتفاق ہے کہ ناجائز قبضہ حرام ہے أور گناہ کبیرہ ہے کیونکہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے بہت سخت وعید سنائی ہے
- سب کا اتفاق ہے کہ کسی کی بھی زمین پر ناجائز طور پہ قبضہ کرکے کاشت کرنا منع ہے أور قطعی حرام ہے أگر کوئی اسے جائز سمجھ کر جان بوجھ کر کرتا ہے تو کافر ہو جائے گا.

- سب کا اتفاق ہے کہ غصب کرنے والے نے جو کاشت کی ہے وہ ناجائز ہے لیکن مالک أس سے زمین کیسے لے سکتا ہے إس میں اختلاف ہے مذہب حنفی مختصراً بیان کرتا ہوں:

پہلی و دوسری صورت میں مالک زمین غاصب کو کہے گا کہ أپنے درخت وغیرہ کاٹو أور اپنی بلڈنگ وغیرہ گراکر لے جاؤ تو أسکو خالی کرنا ہوگی أگر پھر بھی نہ مانے تو جو وہ چاہے کرے کوئی نقصان أدا نہیں کرے گا ، أگر مالک بغیر أسے بتائے گرادے تو نقصان أدا کرے گا کیونکہ شبہ ہے کہ شائد أسے پتا نہ ہو یا کسی نے دھوکہ دیا ہو
أور أگر أسکی زمین پہ اثر پڑھا تو درخت و عمارت لگانے والے کو نقصان کی قیمت أدا کرنا ہوگی
رہی بات تیسری صورت کی تو جس نے زرعی کاشت کی ہے ناجائز زمیں پہ مالک أسے أسکو فصل کاٹنے کا کہے گا أگر وہ نہ مانے تو پھر جو مالک کی مرضی وہ کرے۔
چوتھی صورت میں وہ بیچ کی قیمت دے دے یا پھر انتظار کرے کہ وہ بیچ زمین سے نکل آئے تو أسکو کاٹنے کا حکم دے أور غصب کرنے والا مالک کو قیمت دے گا جو وہاں رائج ہو ٹھیکے وغیرہ کی۔ اطلاع دی بھی ہو تب بھی أوپر جو حکم بیان ہوا ہے أسی کے مطابق عمل ہوگا۔
رہی بات حکومت کی زمین کی تو وہ بغیر حکومتی إجازت کے وہاں أگر أس نے کچھ لگایا ہے تو حکومت جب چاہے خالی کرواسکتی ہے یہی إمام أبو حنیفہ کا قول ہے حدیث کی روشنی میں.
أسکے دعوے کی کوئی اہمیت نہیں ہاں عدالت میں کیس کرسکتا ہے أگر أسکے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔
أب ایک اور صورت ہے أگر ایسی زمین ہے جسکا کیس چل رہا ہے تو فیصلہ آنے تک زمین کا مالک وہی رہے گا جس کے قبضے میں زمین ہے ۔۔
کیونکہ غصب گناہ کبیرہ ہے لہذا یہ رزق حرام لغیرہ ہوگا مطلب أگر مالک کو أسکی قیمت أدا کردے أور مالک راضی ہو تو حلال وگرنہ حرام
واللہ اعلم

Comments

Popular posts from this blog