فطرانہ أور ایک غلط فہمی
غلط العام...۔ کی وضاحت- ایک غلطی کا إزالہ۔۔
سؤال: میں قطر میں ہوں میری طرف سے میرے والدین پاکستان میں فطرانہ أدا کردیتے ہیں،کیا یہ جائز ہے؟؟؟؟؟؟؟؟
جواب أز ابن طفیل الأزہری (محمد علی):
زکاۃ أور فطرانہ کی أدائگی میں فرق ہوتا ہے جیسے کہ قاعدہ فقہیہ ہے:
" الزكوة تابعة للأموال و صدقة الفطر تابعة للابدان"
ترجمہ:
زکاۃ مال کے تابع ہوتی ہے أور صدقۃ فطر بدن کے تابع۔
مستحب کے اعتبار سے یہ قاعدہ متفقہ ہے فقھاء عظام کے ہاں۔
زکاۃ أدا کرنے کی جگہ:
إس قاعده كا معنى يہ ہے كه زكات وہاں أدا كرني چاہيے جہاں اسكا مال ہو كيونكہ زكات مال ميں فرض ہوتي ہے ۔
فطرانہ أدا کرنے کی جگہ:
أور صدقة فطر وہاں أدا كرنا چاہيے جہاں وه شخص خود ہو كيونكه صدقۃ فطر انسان كے جسم كا صدقة ہوتا ہے تو جہاں وه خود ہو أسكو وہيں ادا كرنا چاہيے، يہي مستحب طريقہ ہے.
إمام سرخسی فرماتے ہیں :
ويؤدي صدقة الفطر عن نفسه من حيث هو ، ويكره له أن يبعث بصدقته إلي موضع آخر.
( المبسوط للسرخسي ، 3/106 )
ترجمہ:
أپنی طرف سے صدقہ فطر وہاں أدا کرے جہاں وہ ہے ،اور أسکے کے لیے مکروہ ہے کہ أپنا صدقہ ( فطر) کہیں أور بھیجے ( یا أدا کرے).
غلط العام:
يه غلط العام ہے كہ بہت سے لوگ جہاں وه رہتے ہيں وہاں فطرانه أدا نہيں كرتے بلكہ أنكے گھر والے فطرانہ أدا كرديتے ہيں
حالانكہ وه خود كسي أور ملك ميں ہوتا ہے،مگر فطرانہ أدا ہوجاتاہے ليكن بغير ضرورت كے يہ أمر مستحب نہيں.
كيونكه فطرانہ روزه كے بدلے أدا كيا جاتا ہے تو جہاں وه روزے ركهے اسكو وہيں فطرانه ادا كرنا چاہيے ، يہي مستحب طريقہ ہے ، إس ليے فطرانہ كو زكاة الأبدان بھي كهتے ہيں.
لہذا آپکا فطرانہ تو أدا ہوگیا لیکن مستحب عمل کے خلاف ہے ، أور دوسری جگہ فطرانہ أدا کرتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ جہاں آپ نے روزے رکھیں وہاں جتنی قیمت بن رہی ہے أسی حساب سے دوسری جگہ أدا کریں.
واللہ أعلم
-- - ------------------
-المبسوط للسرخسي الحنفي.
-بدائع الصنائع للكاساني الحنفي.
-تحفة الفقهاء للعلاؤ الدين السمرقندي الحنفي.
-التفريع للابي القاسم المالكي.
-البيان شرح المهذب للابي الحسين الشافعي.
-المغني لابن قدامه الحنبلي.
مذكور كردہ كتب كي كتاب الزكوة باب صدقة الفطر بعض كتابوں ميں زكاة الفطر أور بعض ميں زكاة الأبدان ميں ديكھیں سكتے ہیں ۔
Comments
Post a Comment