وقت سے پہلے زکات أدا کرنا کیسا ہے؟

وقت سے پہلے زکاۃ أدا کرنا:

سؤال:

کیا وقت سے پہلے زکاۃ أدا کرسکتے ہیں ؟

جواب أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی ):

محترم اس مسألہ میں ایک جہت متفق علیہ ہے اور ایک مختلف فیہ

متفق علیہ جہت:

تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ

اگر اس کا مال زکاۃ کے نصاب کے برابر نہیں تو وہ نصاب مکمل ہونے سے پہلے زکاۃ نہیں دے سکتا ، کیونکہ واجب ہونے کا سبب موجود نہیں وہ ہے نصاب کا پورا ہونا۔

مختلف فیہ جہت:

جب نصاب پورا ہوجاۓ لیکن اس پر مکمل سال نہ گزرا ہوتو وہ سال مکمل ہونے سے پہلے زکاۃ دینا چاہتا ہے تو اس میں فقہاء کی دو راۓ ہیں:

پہلی راۓ:

وہ سال مکمل ہونے سے پہلے زکاۃ دے سکتا ہے یعنی وقت سے پہلے
یہ کثیر فقہاء کی راۓ ہے
جس میں  أئمہ حنفیہ مالکیہ، شافعیہ  حنابلہ

لیکن أئمہ مالکیہ کے ہاں شرط ہے کہ وہ زیادہ پہلے نہ ہو یعنی ایک ماہ پہلے یا اس سے بھی کم۔۔

أئمہ شافعیہ کے ہاں شرط ہے کہ مالک یعنی زکاۃ دینے والا سال کے مکمل ہونے تک اہل رہے۔

انکی دلیل:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو قبل أزوقت زکاۃ دینے کی اجازت دی
( احمد، ابو داؤد، ترمذی ،ابن ماجہ ، اسنادہ حسن ، ترمذی ، باب ماجاء فی تعجیل الزکاۃ)

دوسری رائے:

سال مکمل ہونے سے پہلے یعنی وقت سے پہلے وہ زکاۃ نہی دے سکتا یہ ظاہریہ کی راۓ ہے
دلیل یہ ہے کہ:

سال کا مکمل ہونا شرط ہے۔

بندہ فقیر کی راۓ:

مصلحت کو دیکھے آگر وقت سے پہلے دینے میں فائدہ ہے تو کوئی حرج نہیں آگر پہلے کوئ فائدہ نہیں تو وقت پر أدا کرے کیونکہ خروج عن الخلاف مستحب ہے۔

واللہ أعلم

کتب:

بدائع الصنائع، 2/50 ، القوانین الفقہیہ،99 ، مجموع  6/139 ،مغنی،2/629

ابن طفیل الأزہری

Comments

Popular posts from this blog