گلے ملنا بدعت ہے ؟ إمام مالک أور إمام سفیان رحمہما اللہ کے درمیان ایک مناظرہ


سؤال:

کیا معانقہ ( گلے ملنا) بدعت ہے ؟

جواب أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی):

اس کے جواب میں درج ذیل امام مالک اور امام سفیان کا مناظرہ نقل کرتا ہوں اور پھر مذاہب أربعہ:

إمام مالك أور إمام سفیان بن عيينه کے درمیان معانقہ (گلے ملنے)کے موضوع پر مختصر مباحثہ ( مناظرہ) :

قاضی عیاض لکھتے ہیں :

وقد اختلف العلماء في معانقة الرجال للسلام.

(سلام کرتے وقت مرد لوگ جو معانقہ کرتے ہیں أس میں علماء کرام کا اختلاف ہے)

فلم يره ، وقال: هو بدعة.

(امام مالک أس( معانقہ) کو جائز نہیں سمجھتے ، أور فرماتے: معانقہ کرنا بدعت ہے۔

ورآہ سفیان وغیرہ .

( امام سفیان أور دیگر علماء معانقہ کو جائز سمجھتے)

واحتج بفعل النبي-صلى الله عليه وسلم- ذلك لجعفر.

( أور حضرت سفیان نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے دلیل دی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے معانقہ کیا)

فقال مالك: هو خاص له.

( امام مالک فرماتے ہیں : وہ جو معانقہ کیا ہے  وہ صرف حضرت جعفر کے لیے خاص تھا )

وقال سفیان: مایخصه يعمنا.

( کونسی دلیل ہے جو اس عام فعل کو خاص کررہی ہے)

فسکت مالک

(امام مالک خاموش ہوگے)

اسکے بعد قاضی عیاض مناظرہ کا فیصلہ دیتے ہوۓ فرماتے ہیں:

وسكوته دليل على ظهور قول سفيان له وتصويبه .

( امام مالک کا خاموش ہوجانا حضرت سفیان کے قول کے قوی  أور صحیح ہونے کی دلیل ہے)

پھر فرماتے ہیں :

وهو الحق

(حضرت سفیان کا قول صحیح ہے ( معانقہ کرنا سنت ہے) )

(  إكمال المعلم بفوائد مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ ، باب فضائل الحسن و الحسین رضی اللہ عنہما ، ج 7 ، ص:433 )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس مناظرہ سے واضح ہوا کہ معانقہ کرنا سنت ہے خاص طور پر جب وہ عزت یا سلام کے لیے ہو
جیسے أحناف فرماتے ہیں ۔

امام طحاوی نے قول أبی یوسف کو ترجیح دی شرح معانی الآثار میں ، اور صاحب ہدایہ فرماتے ہیں جب قمیض یا جبہ وغیرہ پہنا ہو یعنی کپڑوں کے ساتھ معانقہ کے جائز ہونے پر اجماع ہے ( اجماع سے مراد احناف کے درمیان إجماع).

امام مالک کے ہاں کراہہ تنزیہیہ ہے جسکی وضاحت صاحب الفواکہ الدوانی نے کی۔
امام شافعی کے ہاں سفر سے آنے والے کے علاوہ کسی سے معانقہ کرنا مکروہ ہے ،اور کراہہ سے مراد تنزیہی ہے جسکی نسبت موسوعہ فقہیہ کویتیہ نے امام نووی کی طرف کی۔
حنابلہ کے ہاں معانقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

ان سب کا اتفاق ہے کہ اگر معانقہ کرنے والے کی نیت شہوت کی ہے تو حرام ہے کیونکہ شہوت کا فعل حرام ہے۔۔۔۔۔ أحناف کے ہاں علی وجہ الشہوہ مکروہ تحریمی ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔

معانقہ( گلے ملنے) کو بدعت نہیں کہنا چاہیے جب کہ وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔۔
جن احادیث میں ممانعت ہے أنکی تفصیل میں تین تطبیقات ہیں:
۔ پہلی:
وہ احادیث منسوخ ہیں جیسے امام طحاوی نے فرمایا۔
دوسری:
ممانعت علی وجہ الشہوہ ہ اگر شہوت کا خوف نہیں تو کوئی حرج نہیں جیسے الشیخ أبو المنصور الحنفی نے فرمایا۔
تیسری:
ممانعت اس شخص کے ساتھ معانقہ کرنے میں ہے جو سفر سے نہ لوٹا ہو جیسے شافعیہ فرماتے ہیں ۔

دوسری تطبیق زیادہ احسن اور وجیہ ہے لأن الإعمال أولى من إهماله

۔تنبیہ:
قاضی عیاض رحمہ اللہ نے صرف سفیان ذکر کیا أور یہاں حضرت سفیان سے مراد سفیان بن عیینہ ہے جسکی تصریح امام قرافی مالکی نے ذخیرہ میں کی ، النوع الرابع عشر ، 297/13۔

دو کبار أئمہ کے درمیان مناظرہ کے دوران ادب گفتگو ملاحظہ فرمائیں ،
أور قاضی عیاض رحمہ اللہ مالکی ہونے کے باوجود أنکے إنصاف پر غور کریں کہ کسکے قول کو راجح قرار دے رہے ہیں--- یہ ہیں ہمارے أسلاف رحمہم اللہ جمیعا ونفعنا اللہ بعلومہم -

واللہ أعلم

Comments

Popular posts from this blog