إمام ابن بطہ رحمہ اللہ نے مسلکی لوگوں کے بارے میں کیا فرمایا
إمام ابن بطہ - رحمہ اللہ - نے مسلکی لوگوں کے بارے میں کیا فرمایا؟
تحریر أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی):
إمام ابن بطہ آپ حق ( جو أنکے نزدیک قرآن و أحادیث کے مطابق صحیح ہوتا أسکو) بیان کیا کرتے تھے چاہے وہ کسی بھی مسلک کے خلاف ہو یا سپورٹ میں ہو ،
إسی طرز عمل پر آپ مسلکی لوگوں کے بارے میں أپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
میں سفر و حضر میں چار قسم کے لوگوں سے ملا ؛ قریبی و اجنبی ، ماننے والے أور إنکار کرنے والے ،
لیکن اکثر شہروں میں مینے یہ دیکھا کہ میرے لوگ مجھے کہتے کہ ہماری بات کی تصدیق و تائید کرو تو جب میں جواب دیتا تو درج ذیل مسلکوں کے فتوے لگتے:
- أگر میں کسی کی موافقت کرتا تو وہ مجھے موافق کہتا ( یعنی أپنا ہم مسلک سمجھتا) ،
جب اسی کی کسی بات میں مجھے اختلاف ہوتا تو وہ ہم مسلک لوگ مجھے مخالف مسلک کہتے.
- جب میں أن سے یہ کہتا کہ تمہاری بات قرآن و أحادیث کے خلاف ہے تو مجھ پہ خارجی ہونے کا فتوی لگاتے.
- جب میں أنکے سامنے توحید کے متعلق حدیث سناتا تو مجھے مشبہ کہتے.
۔جب میں إیمان کے متعلق حدیث سناتا تو مجھے مرجئیہ کا لقب دے دیا جاتا.
- جب میں عمل کے متعلق بات کرتا تو مجھے قدری کہتے.
- جب میں فضائل أبی بکر و عمر بیان کرتا تو مجھ پہ ناصبیت کا فتوی لگتا.
- جب میں فضائل اہل بیت کو بیان کرتا تو مجھے رافضی کہا جاتا.
- أگر میں حدیث و تفسیر کے مطابق شرح کرتا تو مجھے ظاہری کہتے ( آج کے دور میں ظاہریہ کے قریب اہل حدیث( غیر مقلد أحباب) ہیں ، یعنی کوئی أگر حدیث کی بات کرے تو أسکو غیر مقلد بنادیا جاتا ہے)
- اگر تأویل کرتا تو اشعری ہونے کا فتوی لگتا.
- أور أگر تأویل کا إنکار کرتا تو معتزلی کہا جاتا.
- نماز میں قراءت کی بات کرتا لوگ کہتے شافعی ہے.
- أگر قنوت کی بات کرتا تو کہتے حنفی ہے.
- أگر قرآن کی بات کرتا تو حنبلی ہونے کا فتوی لگتا.
پھر آخر میں کہتے کہ أگر ایک جماعت کی تائید کرتا تو دوسرے مسلک کے لوگ دشمنی کرتے ( یعنی یہ مسلکی لوگ کسی بات پہ خوش نہیں ہوتے بلکہ خوش ہوتے ہیں تو اس بات پہ سو فیصد انکی ہر بات کے ساتھ موافقت اختیار کی جائے)
أپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے أسکا اختتام ان الفاظ میں کرتے ہیں:
وإني مستمسك بالكتاب والسنة وأستغفر الله الذي لا إله إلا هو وهو الغفور الرحيم.
ترجمہ:
بے شک ( رائے کے وقت)میں قرآن و سنت کو تھامے رکھوں گا ( پھر چاہے وہ کسی بھی مسلک کے موافق ہو یا مخالف)
أور پھر آگے استغفاریہ کلمات کہے .
آج کے دور میں بھی ہر مسلک کی یہی حالت ہے أگر آپ نے قرآن و أحادیث کی بنیاد پر کسی کی بعض آراء میں سپورٹ کردی تو وہ آپ سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ آپ سو فیصد أن سے اتفاق کریں أور أنکی ہر بات کو صحیح کہیں- ( هدانا الله إلى الاستمساك بالكتاب والسنة)
( الاعتصام لامام شاطبی رحمہ اللہ ، جلد : 1 ، ص : 38 )
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
Comments
Post a Comment