ولو تقول علينا بعض الأقاويل سے اجرائے نبوت پر دلیل أور أسکا رد

إیک دوست کا سؤال:

إیک قادیانی نے مرزا کی نبوت کی صداقت پر دلیل دیتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید میں ہے:

" ولو تقول علينا بعض الأقاويل  (٤٤) لأخذنا منه باليمين (٤٥) ثم لقطعنا منه الوتين (٤٦)

ترجمہ أز مرزا :

اور اگر یہ شخص ہماری طرف جھوٹا الہام منسوب کر دیتا خواہ ایک ہی ہوتا تو ہم یقیناً اس کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور اس کی رگ گردن کاٹ دیتے ( سورة الحاقہ :44 تا 46 )

تو دوست نے سؤال کیا !

اگر مرزا جھوٹا تھا تو أسکی رگیں کیوں نہیں کٹیں ۔

إسکے جوابات علمائے کرام نے مختلف دیے تو آپ کیا جواب دیں گے جس سے میرا دل مطمئن ہوجائے ، أور جواب بھی بالکل مختصر ہو؟

جواب أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی) :

عبد عاجز نے عرض کی دوست!

قطع نظر اس کے کہ ترجمہ صحیح ہے یا نہیں لیکن یہ آیت تو خود حضور صلی الله علیہ وسلم کی ختم نبوت پر دلیل ہے۔

دوست نے عرض کیا : وہ کیسے؟

عبد عاجز نے عرض کی:

دوست!

مرزا کے جھوٹے دعوے پر اللہ تعالیٰ کی پکڑ نہ ہونا ہی حضور صلی الله علیہ وسلم کی ختم نبوت پر دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

" وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم "[ الأنفال ، 33 ]

إس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ رب العزت أنکو عذاب نہیں دے گا جب تک آپ أن میں موجود ہیں۔

تو لہذا حضور صلی الله علیہ وسلم قیامت تک أپنی أمت میں موجود ہیں یعنی وہ نبی ہیں ،
أور قیامت تک تبھی نبی ہوسکتے ہیں جب نبوت منقطع نہ ہو نہ تشریعا اور نہ ہی غیر تشریعی طور پہ تو مرزا کا اللہ کی طرف جھوٹا قول ( میں نبی ہوں) منسوب کرنے کی وجہ سے بھی أسکی پکڑ نہ ہونا دلیل ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں تبھی تو اس حیات میں أس پر ظاہری عذاب نازل نہیں ہوا میرے آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کی وجہ سے  ۔۔۔۔۔
تو جس آیت سے قادیانی اجرائے نبوت کی دلیل لیتے ہیں وہ تو أصل میں ختم نبوت پر دلیل ہے۔۔

دوست نے عرض کی:

سبحان اللہ - جس دلیل سے وہ اجرائے نبوت ثابت کررہے تھے اسی دلیل سے ختم نبوت ثابت ہوگی۔

Comments

Popular posts from this blog