سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آواز آنا یہ من گھڑت روایت ہے
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تدفین کے وقت روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ندا آئی :
حبیب کو حبیب کے پاس لے آؤ کیا یہ قصہ صحیح ہے؟
جواب أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)
یہ قصہ ہمارے ہاں جلسوں میں بہت بیان کیا جاتا ہے ،
أور سیرت کی کتابوں میں بھی بیان ہوا ہے لیکن بعض سیرت کی کتابوں کے مصنفین نے اسکا حکم بھی بیان کیا ہے کہ اس قصہ کی أصل کیا ہے
لیکن ہمارے لوگ اللہ رب العزت سے ڈرنے کی بجائے أنکو زیادہ تر لوگوں کا ڈر ہوتا ہے کہ أگر خطاب کے دوران کوئی أیسی بات نہ کی جس سے واہ واہ نہ ملی تو لوگ أنکو جلسوں میں دعوت دینا بند کردیں گے لہذا إسی خوف میں پھر وہ أیسی أیسی روایات و من گھڑت قصے بیان کرتے ہیں جنکی کوئی أصل نہیں ہوتی،
مینے جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قصہ کے متعلق تحقیق کی جسکا خلاصہ یہ ہے:
"سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
جب میں فوت ہوجاؤں تو مجھے غسل دینا أور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر لے جانا ، أگر دروازہ کھل جائے تو وہاں دفنانا وگرنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفنا دینا .
مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
مینے جلدی کی ، أور عرض کی:
یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم ! ابوبکر إجازت طلب کرتا ہے تو مینے دیکھا:
دروازہ کھل گیا ، أور یہ آواز سنی:
حبیب کو حبیب کے پاس لے آؤ ، بے شک حبیب حبیب ( کی ملاقات) کا مشتاق ہے"
علامہ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ إس قصہ کو عبد الجلیل المدنی کا ترجمہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
وعنه أبو طاهر المقدسي بخبر باطل ، أورده ابن عساكر في ترجمة الصديق وفيه أن عليا قال : لما حضر أبو بكر قال لي: إذا مت فاغسلوني.......... إلخ
پھر علامہ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں:
وقال ابن عساكر :
هذا منكر ، وأبو طاهر هو موسى بن محمد بن عطاء كذاب ، وعبد الجليل مجهول.
( لسان الميزان لابن حجر العسقلاني ، ترجمہ نمبر: 4556 ، ج : 5 ، ص : 62 )
أس ( عبد الجلیل المدني) سے أبو طاہر المقدسی نے باطل ( من گھڑت) خبر روایت کی ہے جسکو ابن عساکر نے حضرت أبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں بیان کیا ہے وہ یہ کہ ( آگے وہی قصہ نقل کرتے ہیں جو أوپر لکھا ہوا ہے یعنی جو معروف ہے).
أور ابن عساکر نے فرمایا:
یہ ( قصہ) منکر ہے ، أور أبو طاہر موسی ابن محمد ابن عطاء ہے جو کہ کذاب ہے ، أور عبد الجلیل مجھول راوی ہے.
اس قصہ کو علامہ ابن حجر العسقلانی نے باطل و من گھڑت کہا ، أور ابن عساکر نے فرمایا کہ اس میں راوی کذاب ہے،
أور ابن عساکر نے أپنی تاریخ میں فرمایا کہ محفوظ روایت یہ ہے کہ آپکی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس نے آپ رضی اللہ عنہ کو غسل دیا .
ایک اور بات یاد رکھیں کہ تاریخ ابن عساکر میں اس مقام پر ابو طاہر المقدسی کے نام کے ساتھ کذاب کا لفظ نہیں ہے
لیکن علامہ ابن حجر العسقلانی اور إمام سیوطی وغیرہ نے صراحتاً " کذاب" لفظ کی نسبت إمام ابن عساکر کی طرف کی ہے جس میں یہ احتمال واضح ہے کہ
علامہ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کے پاس تاریخ ابن عساکر کا جو نسخہ تھا اس میں لفظ" کذاب" موجود تھا کیونکہ اس لفظ کے بغیر تاریخ ابن عساکر کی عبارت کا ربط صحیح طرح نہیں بنتا.
یا دوسرا احتمال یہ ہے کہ محفوظ روایت میں صرف غسل کا ذکر ہے وہ بھی یہ کہ حضرت اسماء بنت عمیس نے غسل دیا باقی قصے کا نہیں .
تیسرا احتمال کہ وہ کذب کے لحاظ سے معروف تھا تو ابن عساکر نے صرف أسکا نام ذکر کرنا ہی کافی سمجھا کیونکہ خود ابن عساکر رحمہ اللہ نے أبو الطاہر المقدسی کے کذاب ہونے پر اقوال نقل کیے ہیں.
( تاریخ ابن عساکر/ تاریخ دمشق ، ترجمہ نمبر: 7750 ، جلد: 61 ، ص: 199 )
أور پھر دیگر أئمہ جرح و تعدیل نے بھی أبو طاہر المقدسی کے کذاب ہونے پر اقوال نقل کیے ہیں۔
( الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم الرازی ، ترجمہ نمبر: 715 ، ج: 8 ، ص: 161 )
إمام سیوطی إسی قصہ کو نقل کرنے بعد فرماتے ہیں:
وقال ابن عساكر:
هذا حديث منكر ، وفي إسناده أبو طاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي كذاب عن عبد الجليل المري وهو مجهول.
( الخصائص الكبرى للسيوطي ، ج : 2 ص : 492 )
ترجمہ:
ابن عساکر نے فرمایا:
یہ حدیث منکر ہے ، أور إسکی سند میں أبو طاہر موسی ابن محمد ابن عطاء مقدسی کذاب راوی ہے وہ عبد الجلیل مجھول راوی سے روایت کرتا ہے.
خلاصۂ کلام:
لہذا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والے قصے کی نسبت حضور صلی الله علیہ وسلم کی طرف کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں أور علامہ ابن حجر العسقلانی نے اسکو باطل و من گھڑت کہا ہے.
تنبیہ: بعض نے " عبد الجلیل المزنی لکھا ہے المدنی کی بجائے اور بعض نے المری یعنی صرف نسبت میں اختلاف ہے اصل راوی میں نہیں.۔۔
اعتراض:
أور اب کوئی یہ کہے کہ فلاں فلاں نے بھی اس قصے کو ذکر کیا تو کیا أنکو معلوم نہیں تھا آپ بڑے عالم آگے؟
جواب:
تو جواب ہوگا اعتبار صرف نقل پہ نہیں کہ فلاں فلاں کتاب میں آگیا تو صحیح بلکہ سند بھی دیکھی جائے گی ،
أور پھر ہم نے بھی أپنے سے نہیں کہا کہ یہ قصہ من گھڑت ہے بلکہ بڑے علماء ہی سے نقل کیا تو جس کے پاس دلیل ہو اسی کی بات حجت ہے مجرد نقل حجت نہیں. أور یہ سؤال خود معترض سے ہوگا کہ جب راوی کذاب تھا یا أئمہ نے إس قصے کو باطل کہا تو أنکو معلوم کیوں نہیں ہوا؟
اعتراض:
أگر یہ روایت باطل تھی تو ابن عساکر نے منکر کیوں کہا باطل کیوں نہ کہا؟
جواب:
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ منکر کا اطلاق بعض أوقات أئمہ متقدمین کے ہاں باطل پر بھی ہوتا ہے أور اس پر دلیل خود اسی سند میں راوی کا کذاب ہونا ہے أور ابن عساکر کا اس کے کذاب ہونے پر اقوال نقل کرنا جیسے کہ أوپر حوالہ گزر چکا ہے ،
أور دوسرا جواب یہ ہے کہ جب راوی کذاب آگیا ہے تو پھر روایت کو باطل کہنا ہی صحیح ہے جیسے علامہ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا.
اعتراض:
کیا ہر وہ خبر جس میں راوی کذاب آجائے وہ باطل ہوتی ہے؟
جواب:
أگر وہ روایت کسی أور أیسے طریق سے مروی ہو جس میں راوی کذاب نہ ہو یا أسکا شاہد بغیر کذاب کے موجود ہو تو پھر وہ روایت باطل و من گھڑت نہیں کہلاتی أگر یہ صورتیں نہ ہوں تو پھر وہ باطل ہوتی ہے جیسے یہ قصہ باطل ہے .
اس اصول کے تحت بھی علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے " الآلی المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ" میں علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ پر تعقیبات فرمائیں۔۔۔لہذا اس أصول و قاعدے کا عملی دراسہ وہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں أور علامہ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کی " القول المسدد فی الذب عن مسند الإمام احمد" میں بھی۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
Comments
Post a Comment