کتب فقہیہ" إجارہ" أور " إکراء" میں کیا فرق ہے
فقہ کی کتابوں میں بعض أوقات لفظ " إجارہ " بولا جاتا ہے أور بعض دفعہ " إکراء " تو ہمارے بعض أحباب ان دو لفظوں کو پڑھ کر پریشان ہوجاتے ہیں کہ إجارہ اور إکراء میں کیا فرق ہے؟
أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)
إجارہ و إکراء مقصود کے اعتبار سے ایک ہی ہیں وہ ہے کسی شئے کو أجرت پہ لینا یا کرائے پہ لیکن جو شئے لی جارہی ہے یعنی معقود علیہ کے اعتبار سے بعض دفعہ فقہائے کرام إطلاق لفظی میں فرق کرتے ہیں :
أگر أجرت یا کرائے پہ لی جانے والی شئے ذی العقول ہو یعنی إنسان ہو جیسے کسی شخص کو آپ أپنے ہاں خادم رکھتے ہیں یا نوکری پہ وغیرہ تو أس وقت إجارہ کا لفظ بولا جاتا ہے ،
أور أگر آپ غیر ذی العقول یعنی کوئی جانور یا گاڑی وغیرہ کرائے پہ لیں تو أس وقت إکراء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔۔۔
إجارہ میں عوض کا نام أجرت ہوتا ہے أور إکراء میں عوض کا نام کراء ہوتا ہے۔۔۔۔
باقی إجارہ و إکراء مصدر ہیں فعل مقام تکلم کے اعتبار سے آئے گا۔
بعض دفعہ دونوں جگہ إجارہ ہی کا لفظ بولا جاتا ہے
أور یہ مسئلہ معروف ہے ،
اسکو منسوب تو مالکیہ کی طرف کیا جاتا ہے لیکن استعمال تمام مذاہبِ فقہیہ کے ہاں ہے جیسے کہ فقہائے حنفیہ بھی اسکا استعمال کرتے ہیں.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
Comments
Post a Comment