أصول فقہ کی کتب میں إیجاب أور وجوب میں کیا فرق ہے
أصول فقہ کی بعض کتابوں میں " إيجاب " لکھا ہوتا ہے أور بعض میں " واجب / وجوب"
دونوں میں کیا فرق ہے؟
أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)
سب سے پہلے یہ بات ذہن میں مستحضر کریں
أصول فقہ کی کتابوں کے تین منہج ہیں:
-طریقہ متکلمین ( طریقۃ الشافعیہ) جیسے جمہور غیر أحناف کی کتب ہیں إمام رازی کی محصول و آمدی کی الإحکام وغیرہ وغیرہ.
- طریقۃ الفقہاء( طریقۃ الأحناف) جیسے جمہور أحناف کی أصول فقہ کی کتب ہیں مثل أصول السرخسی و تاسیس النظر للدبوسی وغیرہ وغیرہ
-طریقۃ الجمع بین الفقہاء و المتکلمین جس میں متکلمین و فقہاء کے طریق کو جمع کیا ہوا ہو جیسے توضیح لصدر الشریعہ و جمع الجوامع للسبکی۔
أب جب آپ طریقۃ متکلمین پہ لکھی جانے والی کتب پڑھتے ہیں تو وہاں أحکام تکلیفیہ کو لکھتے ہوئے " إیجاب" " تحریم' لکھا جاتا ہے ، أور طریقہ فقہاء کی کتب میں" واجب/ وجوب " ، " حرام" لکھا جاتا ہے،
دونوں میں آسان سا فرق یہ ہے کہ " إیجاب" کلام الٰہی کے اعتبار سے کہتے ہیں ، أور " واجب/ وجوب" جسکے متعلق وہ کلام ہوتا ہے أسکے اعتبار سے کہتے ہیں مثلا قرآن کی آیت یے:
"أقيموا الصلاة..."
أگر صرف آیت کی تعبیر کرنی ہو تو کہیں گے" إیجاب" ، أور أگر اس فعل کے متعلق تعبیر کرنی ہو جس کے بارے میں یہ آیت ہے یعنی نماز کا فعل تو" واجب/ وجوب کہتے ہیں"
لہذا " إیجاب" کلام الٰہی کے اعتبار سے ، أور " واجب/ وجوب" فعل مکلف کے اعتبار سے۔۔
إسی پر " تحریم " ،" حرام" أور باقی أحکام تکلیفیہ کو بھی قیاس کرسکتے ہیں.
إسی لیے متکلمین حکم تکلیفی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
خطاب اللہ تعالیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔أو الوضع.
أور أحناف حکم تکلیفی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" أثر خطاب اللہ تعالیٰ"
لہذا خطاب اللہ کو" إیجاب" أور اثر خطاب اللہ تعالیٰ کو" واجب /وجوب" کہتے ہیں.
لہذا دونوں متحدان بالذات و مختلفان بالاعتبار ہیں۔ یعنی حقیقت میں دونوں کی مراد ایک ہے أور وہ ہے حکم ، أور اعتبار نسبت کے لحاظ سے مختلف ہیں کما بینا۔
( وضاحت ،صدر الشریعہ کی توضیح کے مقدمہ میں اور علامہ تفتازانی کی التلویح علی التوضیح کے مقدمہ میں دیکھ سکتے ہیں)
تنبیہ: بعض وجوب اور واجب میں بھی فرق کرتے ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
Comments
Post a Comment