مسلکی تشدد کیسے ختم ہوسکتاہے؟ پیاری تحریر

جو شخص بھی قرآن کریم کی 4 آیات کو یاد کرلے تو أسکی گفتگو یا تحریر کبھی أدب سے خالی نہیں ہوگی أور مخالف مسلک کے خلاف ہتھک آمیز رویہ نہیں اپنائے گا؟

أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)

إس دور فتن میں سیاسی یا مذہبی طور پہ جب بھی کوئی أپنی رائے پیش کرتا ہے تو أسکی رائے میں درج ذیل ھتک آمیز 3 پوائنٹ ہوتے ہیں جو عام شخص کو أس صاحب علم سے دور کردیتے ہیں أور  ملحدین أن تحریرات کو دین کے خلاف نفرت پھیلانے میں خوب استعمال کرتے ہیں:

پہلا پوائنٹ:

جب ہم کسی کے رد میں لکھتے ہیں تو ہم مخالف کو نہایت ہی بدتہذیبی و برے ألقابات سے مخاطب ہوتے ہیں.

دوسرا پوائنٹ:

تحکم ہوتا ہے ، تحکم سے مراد کہ جب ہم کسی کے رد میں کوئی پوسٹ لکھتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہم سو فیصد ٹھیک ہیں لہذا مدمقابل کا عقیدہ و فکر غلط ہے ، وہ ناصبی ہے یا خارجی حالانکہ دونوں کی دلیل دلالت و ثبوت دونوں اعتبار سے قطعی نہیں ہوتی یا ثبوت قطعی ہوگا لیکن دلالت ظنی  پھر بھی تحکم کرنا وہ أسلوب ہے جو کبھی مؤثر کن نہیں ہوسکتا بلکہ نقصان دہ ہے ۔۔

تیسرا پوائنٹ:

مخالف مسلک کی رائے کو پورا بیان نہ کرنا أور منصفانہ طور پہ أسکے دلائل کو بیان نہ کرنا أور پھر ہم أپنی رائے پر ہر وہ دلیل بیان کردیتے ہیں جو ہمارے مؤقف کی سپورٹ میں بھی نہیں ہوتی.
یہ وہ أسلوب ہے جو ہمیں صحیح رائے اپنانے سے دور کردیتا ہے.

أگر ہم قرآن مجید کی درج ذیل چار آیات فہم کے ساتھ یاد کرلیں تو کبھی ہماری تحریر یا گفتگو أخلاق سے عاری نہیں ہوگی أور ھتک آمیز رویے بھی نہیں ہونگے ،
أور ان آیات میں خطاب بھی مؤمنین سے ہے أور ایک میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل مبارک ،
وہ چار آیات مبارکہ درج ذیل ہیں:

پہلی آیت:

مخالف مسلک کے ساتھ إنصاف کرنا ، اللہ رب العزت نے فرمایا:

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُـوْنُـوْا قَوَّامِيْنَ لِلّـٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓى اَلَّا تَعْدِلُوْا ۚ اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ " [ المائدہ : 8 ]

ترجمہ :

اے ایمان والو! اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ، اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو کہ یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اس سے خبردار ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

إس آیت میں صریح حکم دیا جارہا ہے کہ کسی بھی قوم کے ساتھ نا انصافی نہ کرو بلکہ جب گواہی دو تو إنصاف کرو.
إنصاف کا مقصود صاف واضح ہے کہ أسکی إیجابیات و سلبیات دونوں بیان کریں لیکن ہم مخالف کی صرف سلبیات کو ہی بیان کرتے ہیں.

دوسری آیت:

بناوٹی نہ بننا جیسے کہ ارشاد مبارک ہے:

"قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ "[ ص: 86 ]

ترجمہ:

آپ فرمادیجیے کہ میں تم سے کسی اجرت کا سؤال نہیں کرتا ہوں أور میں أپنے سے باتیں کرنے والا بناوٹی نہیں ہوں.

إس آیت میں لفظ" متکلفین" پہ غور کریں تو صاف واضح ہے کہ ہم أپنی طرف سے مخالف کی طرف بہت سی باتیں منسوب کردیتے ہیں ، أور أپنے مؤقف پر ایسے أیسے دلائل لاتے ہیں جنکا مؤقف کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہوتا أگر ہمیں حضور صلی الله علیہ وسلم سے محبت ہے تو آپکی اس سنت پہ عمل کیوں نہیں کرتے أور " متکلفین " بننا چھوڑ دیں۔
أور اس لفظ کے معنی میں بہت وسعت ہے جسکو ہم صحیح بخاری کی حدیث کی روشنی میں مستقل بیان کریں گے - ان شاءاللہ تعالیٰ-

تیسری آیت:

گفتگو و تحریر کرتے ہوئے اللہ سے ڈرنا :

"يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّـٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا"[ أحزاب : 70 ]

ترجمہ:

اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔

کوئی بھی بات کرتے ہوئے أگر اللہ کا ڈر ہو تو پھر أس گفتگو و تحریر میں گالی گلوچ نہیں ہوتا.

چوتھی آیت:

خود کو ہی اچھا نہ سمجھنا ، أور مخالف کو بد ألقاب سے موسوم نہ کرنا جیسے کہ فرمان مبارک ہے:

"يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُـوْنُـوْا خَيْـرًا مِّنْـهُـمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْـرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الظَّالِمُوْنَ"

ترجمہ:

اے ایمان والو! ایک قوم دوسری قوم سے ٹھٹھا نہ کرے عجب نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے ٹھٹھا کریں کچھ بعید نہیں کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور ایک دوسرے کو طعنے نہ دو اور نہ ایک دوسرے کے نام دھرو، فسق کے نام لینے ایمان لانے کے بعد بہت برے ہیں، اور جو باز نہ آئیں سو وہی ظالم ہیں۔

أدب سکھانے میں یہ آیت بے مثال ہے کہ ہمیں کسی کو بدتر نہیں سمجھنا چاہیے ہوسکتا ہے أسکی رائے صحیح ہو یا وہ ہم سے أفکار کے اعتبار سے اچھا ہو ، عمل کے اعتبار سے.

لہذا ان آیات سے یہ ادب ملتا ہے کہ گفتگو إنصاف پر مبنی ہو ، تحکم نہ ہو ، أور  تکلف نہ ہو یعنی مخالف کی ہر بات کو غلط نہ کہو ، أور خود کو دوسروں سے أچھا نہ سمجھو کہ بس میری رائے ہی صحیح ہے مخالف کی غلط أور برے ألقابات کے ساتھ مخالف کو مت مخاطب کرو.

واللہ اعلم.

Comments

Popular posts from this blog