ڈرامہ " کن فیکون" کے عنوان پر شرعی نظر أور ہمارا مطالبہ

ڈرامہ " کن فیکون" کے عنوان پر شرعی نظر أور ہمارا مطالبہ

أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)

دور فتن میں جو شئے ناپید ہے وہ " حیاء" ، جب حیاء ختم ہو جائے تو پھر انسان جو چاہتا ہے کرتا ہے چاہے دنیاوی فیلڈ ہو یا مذہبی،
  إسی تسلسل کا نتیجہ ہے کہ ان أیام میں ایک ڈرامہ " کن فیکون " کے نام سے نشر کیا جارہا ہے ، جس کے ہدایتکار الیاس کشمیری ہیں ، أور اداکار عمران عباس ہیں ،
اس سٹوری کو لکھنے والی قیصرہ حیات ہیں ،
حسن ظن رکھتے ہوئے عبد عاجز یہی کہ سکتا ہے کہ انہوں نے جو ڈرامے کا عنوان" کن فیکون" رکھا ہے ہوسکتا ہے یہ لاعلمی کی وجہ سے ہو
لیکن " کن فیکون " نہ تو کسی کا نام ہے جو آپ أپنے کلام میں استعمال کرسکتے ہیں أور نہ ہی محاورہ بلکہ یہ قرآن کی آیت کا جزو لا ینفک ہے جس میں اللہ رب العزت کی قدرت کی طرف إشارہ ہے ،

أور فقہائے کرام ہمیشہ قرآن مجید کو أپنے کلام میں بطور محاورہ استعمال کرنے سے منع کرتے آئے ہیں لیکن یہاں صرف استعمال نہیں بلکہ أسکے ساتھ موسیقی بھی چلائی جاتی ہے جو کہ استخفاف و استہزاء کے زمرے میں آتا ہے ،
إمام ابن قدامہ فرماتے ہیں :

لا يجوز أن يجعل القرآن بدلا من الكلام ؛ لأنه استعمال له في غير ما هو له فأشبه استعمال المصحف في التوسد ونحوه ....

(المغني لابن قدامه ،  ج: 3  ص : 203 )

ترجمہ:

جائز نہیں کہ قرآن مجید کو ( دنیاوی) کلام کی جگہ استعمال کیا جائے کیونکہ وہ استعمال أیسی چیز کے لیے ہے جس کے لیے قرآن مجید کو بنایا نہیں گیا ، ( جو قرآن کریم کو محاوروں میں استعمال کرے) یہ أیسے ہی جیسے کوئی قرآن کریم کو بطور تکیہ استعمال کرتا ہے وغیرہ.

حضرت ابراہیم نخعی تابعی فرماتے ہیں:

كانوا يكرهون أن يتأولوا شيئا من القرآن عندما يعرض من أحاديث الدنيا...الخ .

( تفسير من سنن سعيد بن منصور ، ج : 2 ، ص : 318 ، اس میں راوی مغیرہ بن مقسم ہیں جو کہ مدلس ہیں خاص حضرت ابراہیم نخعی کی روایت میں علی القول اور روایت" عن" سے ہے لیکن یہاں پہ وہ ایک فقہی قول نقل کررہے ہیں نہ کہ حدیث یا اثر صحابی لہذا أنکا مدلس ہونا اس طرح کے قول میں نقصان دہ نہیں )

ترجمہ : ( صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین و تابعین) قرآن مجید میں سے کسی بھی جملے کو دنیاوی کلام میں استعمال کرنے کو ناپسند فرماتے تھے.

إسکے علاوہ بھی أقوال ہیں جن میں صراحتاً ممانعت ہے کہ قرآن مجید کو دنیاوی محاوروں میں استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ استخفاف و استہزاء کے معنی میں آتے ہیں جیسے ڈرامے کا نام رکھا گیا أور پھر موسیقی کی ملاوٹ تو أیسے مقام پہ تو قرآن کا أیسا جملہ جو قطعاً اللہ رب العزت کی قدرت پہ دلالت کرے استعمال کرنا حرام ہے کیونکہ قرآن مجید نے فرمایا:

" في صحف مكرمة مرفوعة مطهرة بأيدي سفرة كرام بررة "[ عبس: 13 - 16 ]

ترجمہ:

( یہ) مکرم اوراق میں ( لکھی ہوئی) ہے جو بلند و پاکیزہ ہے جو أیسے سفیروں کے ہاتھوں سے پہنچی ہے جو مکرم و اطاعت گزار ہیں.

لہذا جس کتاب کے اوراق و أور أسکو نقل کرنے والے اتنے معزز و مکرم و اطاعت گزار ہوں أسکو ڈراموں میں بطور عنوان استعمال کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں کیونکہ یہ قرآن کریم کی قدر و منزلت کو کم کرنے کے مترادف ہے لہذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ڈرامے کے عنوان کو بدلا جائے أور دیکھنے والے بھی اسکا بائیکاٹ کریں۔۔۔۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Comments

Popular posts from this blog