وطن کی محبت أور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

حب الوطنی اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جتنے میثاق کا ذکر کیا
أن میں سے ایک میثاق حب وطنی بھی ہے جیسے کہ قرآن فرماتا ہے:

" وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ " [ بقرہ : 84 ]

اس آیت میں لفظ " ولا تخرجون أنفسکم من دیارکم"
پر عموم کے اعتبار سے غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے  کہ کسی بھی طرح خود کو اپنے ملک سے الگ نہ کرو،
أفکار ، نظریات اور حسی و معنوی أفعال سے اپنے ملک میں رہنے یعنی سپورٹ کرنے کا اظہار کرو۔

یہی حب وطنی تھی جب میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو حدیث بدئ الوحی میں فرمایا:

" أومخرجی ھم"

( متفق علیہ؛ صحیح بخاری ، حدیث نمبر: 3 ، صحیح مسلم ،حدیث نمبر: 160)

یہ جملہ آپ نے حب وطنی میں بولا کہ کیا میری قوم مجھے میرے وطن سے نکال دے گی ،
اس جملہ سے ثابت ہوتا ہے کہ وطن سے محبت سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے اور قرآن کا عہد بھی ۔
جیسے کہ کتاب "شرح الحدیث المقتفی" میں ہے:

"  ففي هذا دليل على حب الوطن وشدة مفارقته على النفس"

ترجمہ:

اس حدیث میں حب وطنی پر دلیل ہے  أور اس پر بھی کہ وطن سے جدائی کسی بھی شخص کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔
                    ( ص : 163 )

اور علامہ ابن حجر العسقلانی نے بھی یہی معنی ذکر فرمایا ( فتح الباری ،360/12 )

ہجرت کے لیے جب مکہ کو چھوڑنے کا وقت آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حب وطنی کو عظیم ألفاظ میں بیان فرمایا:
ما أَطْيَبَكِ مِنْ بَلَدٍ، وَأَحَبَّكِ إِلَيَّ، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُونِي مِنْكِ مَا سَكَنْتُ غَيْرَكِ»

مفہوم:

مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا:
تو کتنا پاکیزہ ملک ہے ، اور تو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ،اگر میری قوم مجھے تم سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کسی اور ملک میں سکونت اختیار نہ کرتا۔

(سنن ترمذی ، حدیث نمبر: 3926 ،  اور إمام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے حسن صحیح غریب ہے)

یہ حدیث بھی حب وطنی کی واضح مثال ہے۔
اور آج بعض لوگ آزادی کے دن شکر کرنے کے بجائے ایک قدغن سمجھتے ہیں  ،
لہذا حب وطنی کا اظہار تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے ،
اور صحیح بخاری ہی میں ہے کہ جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو مکہ کی طرف سے آنے والے راستے پر بیٹھا کرتے تھے تو آنے والوں سے اپنے وطن کا حال دریافت کرتے
اور روتے تو جب اما عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے یہ حالت دیکھی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دعاء فرمائی:
اے اللہ مدینہ کو ہمارے نزدیک مکہ جیسا یا اس سے بھی زیادہ محبوب تر بنادے  ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعاء کے الفاظ ہیں:

" اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة أو أشد.."

ترجمہ:
اے اللہ! مدینہ کو ہمارے ہاں محبوب بنادے جیسے مکہ ہے یا اس سے بھی زیادہ ( محبوب تر)

(  متفق علیہ؛ صحیح بخاری ، حدیث نمبر: 1889 ، صحیح مسلم بنحوہ، حدیث نمبر: 1376 )

تو اسی دعاء کے بعد مدینہ منورہ صحابہ کرام کے ہاں محبوب تر ہوگیا ،  اور یہ دعاء بھی حب وطنی کے لیے کی لہذا ہمیں ہمیشہ حب وطنی کی توفیق کی دعاء کرنی چاہیے یہ بھی میرے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔
یہ ہے محب وطنی جسکا درس تاجدار حرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے ملتا ہے تو لہذا ہر شخص کو محب وطنی کا اظہار جوش و خروش اور جزبے و ولولہ سے کرنا چاہیے کیونکہ یہ ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم سنت ہے۔
جسکا خلاصہ قرآن کی  آیت كا درج ذيل جز ہے:

علامہ ابن حجر العسقلانی حدیث ناقۃ کی شرح میں فرماتے ہیں  کہ یہ حدیث اس پہ دلالت کرتی ہے کہ وطن کی محبت اور اس سے لگاؤ رکھنا ایک مشروع عمل ہے جیسے کہ وہ فرماتے ہیں:

وفي الحديث دلالة على فضل المدينة وعلى مشروعية حب الوطن والحنين إليه.

ترجمہ:

اس حدیث میں مدینہ ( رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کی فضیلت پر دلیل ہے اور اس پر بھی دلیل ہے کہ وطن سے محبت کرنا أور اسکی طرف قلبی ميلان رکھنا مشروع عمل ہے
( فتح الباری ، باب من أسرع ناقتہ اذا بلغ المدینۃ ، 620/3 )

اور یہی امام عینی نے فرمایا اسی حدیث کے تحت( عمدۃ القاری ، 135/10 )
اور تحفۃ الأحوذی میں بھی یہی ہے ( تحفۃ الأحوذی ، 283/9 )۔

جشن آزادی مبارک ہو ہم ہیں پاسباں اسکے۔

        خون دل دے کہ نکھاریں گے رخ برگ گلاب
        ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog