ریاستی قوانین

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بعض ریاستی قوانین کے متعلق سؤالات ،
تاکہ ہمیں معلوم ہوکہ دین إسلام صرف عبادات تک ہی محدود ہے یا عدل و انصاف کے لیے بہترین ریاستی قوانین بھی دیتا ہے

جوابات أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)

سؤال نمںر 1 :

حکمرانوں کو جو گفٹ ملتے ہیں اسکے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ریاستی قانون کیا ہے؟

جواب:

آج جب کسی بھی حاکم یا منسٹر پر کیس ہوتا ہے تو وہ کسی نہ کسی کا لیٹر یا ثبوت دیتا ہے کہ فلاں شخص نے مجھے گفٹ کیا ہے ،

حکمرانوں کو أیسے جو گفٹ ملتے ہیں اسکے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح قانون پاس کیا ، أور أیسا واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور پہ بھی پیش آیا۔

متفق علیہ( صحیح بخاری ، صحیح مسلم) کی حدیث مبارکہ ہے جو کہ حضرت أبی حمید الساعدی سے روایت ہے کہ ایک صحابی جنکا نام ابن اللتبیۃ ( صحیح بخاری میں ابن الأتبیۃ) کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منسٹر بناکر بھیجا ،
جب أنکی مدت پوری ہوئی یا کام ختم ہوا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوۓ أور  پوری تفصیل دیتے ہوئے عرض کی:

يارسول الله!

هذا لكم وهذا أهدي لي

[(یہ( أشیاء) آپ کے لیے ہیں( یعنی ملک کے لیے) أور یہ( أشیاء) مجھے ہدیہ( گفٹ) کی گئی ہیں] ۔

فقال له:

أفلا قعدت في بيت أبيك وأمك ،فنظرت أيهدي لك أم لا؟

[آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے أن منسٹر صحابی سے فرمایا:

اگر تم أپنے ماں باپ کے گھر بیٹھے رہتے ، پھر آپ دیکھتے کہ آپکو ( کوئی) ہدیہ( گفٹ)  دیتا یا نہیں] ۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلال میں آگے أور ایک طویل خطاب فرمایا جس میں یہ قانون پاس ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا يغل أحدكم منها شيئا إلا جاء به يوم القيامة

[ جو شخص بھی کرپشن کرے گا وہ أسی کے ساتھ ہی قیامت کو پیش ہوگا]

پھر صحیح مسلم کے ألفاظ ہیں :

صحابی فرماتے ہیں:
ثم رفع يديه حتى رأينا عفرتي إبطيه ، ثم قال:
اللهم ! هل بلغت؟

[ پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہاتھ أٹھاے حتی کہ ہم نے آپکی دونوں بغل مبارک کی سفیدی کو دیکھا ، پھر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:

آۓ اللہ ، کیا مینے یہ بات( قانون) پہنچا نہیں دیا ( پاس کردیا) ]

( صحیح بخاری ، باب ہدایا العمال( منسٹرز وغیرہ کا گفٹ لینا ) ، حدیث نمبر: 7174  ، صحیح مسلم ، باب تحریم ہدایا العمال ، حدیث نمبر: 1832)

اس حدیث پہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمرانوں کے گفٹ کے بارے میں درج ذیل ریاستی قوانین پاس کیے:

1۔ ہر حاکم و منسٹر أپنی مدت پوری کرنے پر تمام تفاصیل جمع کراۓ ، جو کچھ أسکو ملا ہے أسکی پوری ڈیٹیل دے

2۔ حدیث میں لفظ ( لا یغل) بول کر یہ قانون بھی پاس کردیا کہ منسٹرز اور حکمرانوں کا گفٹ لینا کرپشن کے معنی میں ہے

3۔ حکمرانوں و منسٹرز پر گفٹ لینا حرام ہے کیونکہ حدیث میں گفٹ کو کرپشن کہا گیا ہے أور گزشتہ تحریر میں ہم نے واضح کیا تھا کہ کرپشن کرنا گناہ کبیرہ ہے

4۔ حکمرانوں و منسٹرز کو جو گفٹ ملے وہ أسکو یا تو واپس کرے یا ملکی خزانہ میں جمع کراۓ جیسے امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں متعلقہ حدیث کے تحت فرمایا

5۔ گفٹ رشوت کے معنی میں ہونگے کیونکہ اگر اسکو یہ عہدہ نہ ملتا تو گفٹ دینے والا أس منسٹر کو گفٹ نہ دیتا ،کیونکہ گفٹ کا مقصد ہی اس صورت میں رشوت ہے جسکا مشاہدہ ہم کرتے ہیں أپنے ملک میں۔

6۔  قانون بناتے وقت حلف لینا چاہیے اللہ کے نام پر تاکہ بعد میں کوئی أپنے لالچ میں قانون میں تغیر و تبدل نہ کریں

7۔ یہ حدیث اس پر صریح دلالت کرتی ہے کہ حدیث بھی خدا کی طرف سے وحی ہے جسکا انکار کفر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اعتراض :

جن احادیث میں گفٹ کے لینے کا ذکر ہے تو أسکا جواب کیا ہوگا؟

جواب:

اس اعتراض کا جواب محدثین و فقہاء کرام نے دیا ہے جیسے امام نووی نے شرح صحیح مسلم باب غزوۃ حنین حینن۔۔۔ میں دیا ،
ایک تطبیق یہ ہے کہ اگر حاکم وقت راضی ہو یعنی اگر قانون کے دائرے میں ہو تو جائز ہے جیسے قصۃ معاذ ۔

لیکن میرے نزدیک موجودہ عصر کو دیکھتے ہوے دونوں قسم کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں
بلکہ جن میں لینے کا ذکر ہے وہ ہدیہ ( گفٹ) مراد ہے جو رشوت کے معنی میں نہیں ہوتا
لہذا ہر ملک یہ قانون پاس کرے کہ منسٹر ایک معقول اور مناسب قیمت تک ہدیہ لے سکتا ہے
اور وہ بھی أس وقت جب أس پہ رشوت کا شبہہ نہ ہو جیسے فیصلے کے وقت یا کام کے وقت متعلقہ منسٹر کو گفٹ دینا  حرام ہوگا اور کرپشن شمار ہوگی ،
یہی قانون حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پاس کیا جسکا ذکر قصہ معاذ اور ترمذی شریف کی حدیث میں بھی ہے۔ اور
اسکا حل یہ ہے کہ منسٹری شروع ہونے سے لے کر مدت ختم ہونے تک اسکی جائداد کی مکمل تفصیل طلب کی جاۓ اور چیک کیا جاۓ کہ اسکی جائداد کیسے بڑھی۔
یعنی ایک دفعہ شروع میں اثاثہ جات کی تفاصیل لی جائے أور دوسری دفعہ جب أسکے عہدے کی مدت پوری ہو تب لی جائے تاکہ جائداد میں اضافے کا سبب معلوم ہوسکے.

قارئین!

ہمارے ووٹوں سے بننے والے حکمران آج مالا مال ہیں کیوں؟

ہمارے حکمرانوں پر کرپشن ثابت ہونے پر بھی انکی جائداد کو واپس نہیں لیا جاتا؟

تفکر کریں ہمارے حکمرانوں کو کتنے قیمتی أور ملین میں گفٹ ملتے ہیں کیوں؟؟

کیا 5 سالہ مدت پوری ہونے پر قومی یا صوبائی أسمبلیوں نے تمام منسٹرز کی رپورٹ جمع کروائی؟

سب کے جواب ابھی تک ادھورے ہیں.

اعتراض:

صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے أیسا کیوں کیا؟

جواب:

صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس لیے کیا کہ أنکو معلوم تھا کہ گفٹ قبول کیا جاتا ہے
لیکن بعد میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے گفٹ کے معاملے میں خاص قانون جاری کیا لہذا کسی کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کرپشن کی نیت سے گفت لیے
بلکہ یہ قانون اس واقعہ کے بعد پاس ہوا کہ اب جو بھی حکمران ہیں وہ گفٹ نہیں لیں گے الا کہ کچھ شروط ہیں.
یا پھر قانون پہلے موجود تھا لیکن صحابی کو علم نہ تھا جسکی وضاحت پھر حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان کے سامنے فرمائی۔

سوال نمبر 2:

جو حکمران أپنے أثاثے جات چھپاتے ہیں أنکے متعلق حضور صلی الله علیہ وسلم کا کیا ریاستی قانون ہے ، أور کرپشن کے متعلق کیا فرمایا؟

أثاثوں کو چھپانا اسکو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غلول سے تعبیر کیا ہے ،
اور غلول کا معنی کرپشن ، منی لانڈرنگ اور اثاثوں کے چھپانا ہے
أور لفظ" غلول" کا اطلاق ہر أس شے پہ ہوتا ہے جس میں خیانت کی ہو یا وہ مال حرام و ناجائز طریقے سے کمایا ہو۔

امام مسلم نے ابن عمیرہ الکندی کے طریق سے صحیح میں روایت کیا ہےکہ:

" سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من استعملناه على عمل فكتمنا مخيطا فما فوقه كان غلولا يأتي به يوم القيامة ..."

     (صحیح مسلم ، باب تحريم هدايا العمال، حديث نمبر: 1833 )

ترجمه:
جسکو بھی ہم کوئی بھی منسٹری ( کسی بھی قسم کی وزارت کا عہدہ) عطاء کریں پس أسنے ہم سے ( أپنے أثاثوں میں سے ) چھوٹی سی شئے کو چھپایا یا اس سے زیادہ تو وہ کرپشن ہے جسکے ساتھ قیامت کو پیش ہوگا۔

اس حدیث میں چھوٹی سی شے کو چھپانے۔کو کرپشن کہا گیا ہے اور اسی کے ساتھ قیامت کے دن پیش ہوگا کیونکہ غلول گناہ کبیرہ میں سے ہے ۔

ذرا تصور کریں انکے بارے میں جو محلات کوٹھیاں گاڈیوں اور بینک بیلنس کی تفاصیل چھپاکر بیٹھے ہیں أنکا حشر کیا ہوگا؟۔

أسی مجلس میں ایک منسٹر صحابی بھی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے  خوف میں آکر عرض کی:

یارسول اللہ!

اتنی بڑی سزا ہے أثاثے چھپانے کی تو میں أپنی وزارت سے ریزائن کرتا ہوں آپ اکسپٹ فرمائیں ،اس صحابی کی ألفاظ تھے:

" اقبل عني عملك ، قال: ومالك؟ قال: سمعتك تقول كذا وكذا"
              
     
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی منسٹرز صحابہ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا:

"وأنا أقوله الآن، من استعملناه على عمل فليجيئ بقليله وكثيره، فما أوتي منه أخذ، وما نهي عنه انتهى"

       (پہلی والی حدیث کا ہی حصہ ہے)

مفہوم:

جو بھی منسٹرز ہیں ان کے پاس جو کچھ ہے سب کی تفصیل پیش کریں
جو دیا جاۓ  اسے لے لے اور جو نہیں اس سے باز آجاۓ (لیکن سزا میں کمی نہیں ہوگی،  "وأنا أقوله الآن" سے سزا والا معنی کیا ہے جسکو محدثین نے بیان کیا۔

حکمرانوں ڈرو اس کرپشن سے جسکی سزا اس حدیث میں وارد ہوئی ہے ۔

اس حدیث میں درج ذیل ریاستی قوانین بیان ہوۓ ہیں:

- أثاثوں کو چھپانا کرپشن ہے
۔ریزائن کا أیکسپٹ کرنا
أثاثہ جات کی تمام تفاصیل جمع کروانا
۔عہدہ کی کارکردگی کی تفصیل پیش کرنا
۔کرپشن ثابت ہونے پر معافی نہیں

یہ ہے سرکار مدینہ خاتم النبیین (لا نبی بعدہ لا شرعیا ولا غیر شرعی) صلی اللہ علیہ وسلم کے ریاستی قوانین اسی کی اتباع میں اکانومی اور ملک کی بقاء ہے-

قارئین غور کریں:

کرپشن گناہ کبیرہ ہے ، جسکو سن کر اسکے خوف سے بعض صحابہ کرام نے استعفے دے دیے تو آپ بھی سوچیں کہ:
وہ پارٹیز جو کرپشن میں معروف ہیں أور أپنے وعدہ پورے تو کیا شروع تک نہ کیے
اور جھوٹ بول کر ووٹ لیتے ہیں أیسے لوگوں سے احتساب کیوں نہیں؟

یہ لوگ اگر دنیا کی سزا سے بچ گے تو قیامت کو اسی کرپشن کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں اسکا طوق گردن میں پہنا کر پیش کیا جائیں گے تو خیال رکھنا کہیں انکو ووٹ دینے کی وجہ سے یہی طوق ہماری گردنوں میں نہ ہو ،
کیونکہ أنکو اس گناہ کے کرنے کی طاقت ہمارے ووٹ نے دی۔

سؤال نمبر 3 :

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کا طریقہ احتساب کیا تھا کوئی واقعہ ذکر کریں؟

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کا طریقہ احتساب أور آج کی پارلیمنٹ:

اس سے پہلے ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احتساب أور أثاثہ جات کے متعلق  ریاستی قوانیں اور أسکی عملی مثالوں کی وضاحت کی جسکو آج کے قانون میں ( صادق و أمین)  کے زمرے میں بیان کیا جاتا ہے ۔

أب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بناۓ ہوۓ قوانین کی ایک عملی مثال پیش کرتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی حیات مبارکہ سے۔

ایک طویل قصہ ہے جسکو مختصرا درج ذیل میں بیان کرتا ہوں :

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال یمن بھیجا ،  تو آپ کافی سال کے بعد جب سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں واپس آۓ تو آپ کے پاس مال کافی تھا ،
          تو جب حضرت معاذ سے  حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ کی ملاقات مکہ میں ہوئی تو آپ نے فرمایا:

هل لك يا معاذ! أن تطيعني تدفع هذا المال إلى أبي بكر فإن أعطاك فاقبله

( یا معاذ کیا تم میری بات مانوں گے وہ یہ کہ یہ سارا مال حضرت أبوبکر کے پاس پیش کرو(احتساب کے لیے) پھر اگر وہ یہ مال عطا کردیں تو تم ( دوبارہ) لے لینا ۔
اسکے بعد حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے انکار کردیا  ، لیکن دوسرے دن حضرت معاذ سیدنا عمر فاروق کے پاس آۓ  اور عرض کی:
میں وہ کرنے کو تیار ہوں جسکا آپ نے مجھے کہا تھا( یعنی احتساب کا) کیونکہ مینے خواب دیکھا کہ: میں آگ کی طرف دوڑ رہا ہوں اور آپ مجھے اس آگ سے بچاتے ہیں( یعنی عدم احتساب کو خواب میں آگ کی شکل میں دکھایا گیا)
پھر حضرت معاذ کے پاس جتنا مال تھا وہ سارے کا سارا لے کر حضرت سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوگۓ حتی کے چھوڑا کوڑا تک بھی پیش کردیا ، اور قسم اٹھائی کے مینے کچھ نہیں چھپایا ( یہ سب کچھ ہے جو میں یمن سے لایا ہوں)
جب احتساب ہوگیا تو حضرت سیدنا صدیق اکبر نے فرمایا:
هو لك لا أخذ منه شيئا

( یہ سب کچھ آپ کا ہے میں نہیں لونگا )

پھر حضرت عمر نے فرمایا:

هذا حين حل وطاب

( اب یہ مال حلال ہے اور انہوں نے خوشی سے دیا ہے / یعنی کوئی قانونی رکاوٹ نہیں)

(مصنف عبد الرزاق ،  باب المفلس ،  حدیث نمبر: 15177 ،سیر اعلام النبلاء ، معاذ بن جبل ، 276/3 ، البدایہ والنہایہ ، بعث رسول اللہ الامراء الی الیمن ، 102/5 )

عزیزم!

اس قصہ میں حضرت عمر فاروق اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کے الفاظ پر غور کریں تو درج ذیل قوانین کا پتا چلتا ہے:

1۔ مدت ختم ہونے پر احتساب دینا
2۔ احتساب کے بغیر کسی بھی منسٹر کا عہدہ کے بعد مال استعمال کرنا حرام ہے ۔
3- عدم احتساب کو خواب میں ایک آگ کی شکل میں دکھایا گیا۔
4- جو مال قانونی ہو اسے واپس کردیا جاۓ اور جو کرپشن کا ہو اسے ملکی خزانہ میں جمع کرایا جاۓ۔

اب اس واقعہ کی روشنی میں درج ذیل نقاط پہ تفکر کریں:

پارلیمنٹ کی پانچ سالہ مدت ختم ہوتی ہے تو کیا کوئی منسٹر  أپنے أثاثہ جات کی تفاصیل دیتا ہے ؟

کیا کوئی منسٹر  اپنی کارکردگی کی رپورٹ جمع کرواتا ہے؟

کیا کسی بھی ادارہ نے مدت ختم ہونے پر پارلیمنٹ سے احتساب کا مطالبہ کیا کبھی؟

کیا جنکی دولت پارلیمنٹ کے شروع میں کم تھی مدت ختم ہوئی تو وہ کروڑوں میں تھی تو کسی نے احتساب طلب کیا؟

سب کا جواب ہوگا:

نہیں

پھر سؤال خود سے کریں کہ قصور وار کون؟

جواب آپکا ضمیر آپکو خود دے گا کہ قصور وار آپ خود ہیں کوئی أور نہیں۔

اثاثہ جات کی صرف تفصیل مطلوب نہیں ہوتی بلکہ اصل مطلوب یہ ہوتا ہے کہ وہ مال جمع کیسے کیا؟

کیا آج تک کسی کے کرپشن سے جمع کیے ہوئے مال کو ملکی خزانہ میں جمع کروایا؟
نہیں

یہی احتساب کی پالیسی ہی تھی جسکی وجہ سے صحابہ کرام نے وقت کی دو سپر پاور کا غرور خاک میں ملا دیا تھا ،

اور ایک ہم ہیں جنکے پاسپورٹ تک کی عزت نہیں کرپٹ پارلیمنٹ کی وجہ سے أور دعوی کرتے ہیں غزوہ ہند لڑنے کا لہذا غزوہ ہند کون لڑے گا أور کب ہوگا اس پہ میری مستقل پوسٹ کا مطالعہ فرمائیں ۔

سو ان تماما جوابات سے یہ بات واضح ہوتی کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے صرف عبادات ہی نہیں دیں بلکہ بہترین ریاستی قوانین بھی دیے جو عدل و انصاف پر مبنی ہیں  جنکو نافذ کرنے میں ہماری عزت کی بھی بقاء ہے أور معاشی ترقی کی ضمانت بھی
أور اس عدل و انصاف پر قرآن بھی شاہد ہے أور حضور صلی الله علیہ وسلم کی أحادیث مبارکہ بھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کا عمل بھی .

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Comments

Popular posts from this blog