میں أپنا إیمان کیسے بچاؤں
فرقہ پرستی سے تنگ آکر ایک نوجوان جب إیمان کے آخری کنارے پہ تھا تو أس نے أپنا إیمان کیسے بچایا؟
الحاد کی طرف جانے والے أحباب اس تحریر کو ایک دفعہ ضرور پڑھیں۔
أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)
مصر میں رات کے بارہ بجے کا ٹائم تھا کہ أچانک مجھے نا معلوم نمبر سے کال آرہی تھی ، جب أسکی کال بار بار آرہی تھی تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی أیمرجنسی ہے تو مینے کال أٹینڈ کی تو کال والے صاحب حال احوال پوچھنے کے بعد فرمانے لگے:
علی بھائی !
فرقہ پرستی سے بہت تنگ ہوں ،
أور ہماری طرف ہر فرقے پہ کسی نہ کسی دوسرے فرقے کی طرف سے کفر یا شرک کا فتوی لگا ہوا ہے تو مجھے بڑی پریشانی رہتی ہے کہ پتا نہیں کہ میں مسلمان بھی ہوں یا نہیں ؟
مجھے بعض أوقات بہت غصہ آتا ہے أور حالت اضطرابی میں أپنے إیمان پہ شک کرنے لگتا ہوں تو کسی نے آپکا نمبر مجھے دیا ہے أور کہا:
وہ آپکو کوئی حل بتا سکتے ہیں جس سے آپکو دلی اطمینان بھی ہوگا أور أپنے ایمان پہ یقین بھی اور الحاد کا شکار ہونے سے بھی بچ جائیں گے تو برائے کرم مجھے اس اضطرابی کیفیت سے نکالیں.
عبد عاجز نے عرض کیا :
آپکا نام کیا ہے؟
انہوں نے بتایا :
میرا نام فرحان ہے ، أور خود کا بزنس کرتا ہوں .
عبد عاجز نے عرض کیا:
فرحان بھائی!
ہمیشہ ایک بات یاد رکھنا أپنے إیمان کا فیصلہ فرقہ پرست أور تکفیری ملاؤں کی تقاریر سن کر یا أنکی کتابیں پڑھ کر مت کرنا بلکہ حدیث جبریل پر کرنا جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے إیمان و إسلام و إحسان کے متعلق سؤال ہوا أور آپ نے جوابات عنایت فرمائے ،
أگر أس پہ قائم ہیں تو خود کے إیمان پر اطمئنان رکھنا ، أگر اس میں سے کسی بھی شئے کا إنکار کرتے ہیں تو تجدید إیمان کرنا.
أور ہمیشہ اس حدیث کے ساتھ آپکے سامنے اس نوجوان کا قصہ بھی رہے جو اس حدیث کے بعد بیان کرونگا کیونکہ اس نوجوان کی کیفیت بھی آپ ہی کی طرح تھی أور پھر أسکو بھی استقرار إیمانی کی نعمت حاصل ہوئی.
فرحان بھائی :
علی بھائی! برائے کرم وہ حدیث جبریل کیا ہے؟
عبد عاجز نے عرض کیا:
حدیث جبریل وہ ہے جس میں أرکان إسلام و أرکان إیمان و أرکان احسان بیان ہیں جو معروف ہے
وقال : " يا محمد أخبرني عن الإسلام " ، فقال له : ( الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ، وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة ، وتصوم رمضان ، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا ) ، قال : " صدقت " ، فعجبنا له يسأله ويصدقه ، قال : " أخبرني عن الإيمان " قال : ( أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر ، وتؤمن بالقدر خيره وشره ) ، قال : " صدقت " ، قال : " فأخبرني عن الإحسان " ، قال : ( أن تعبد الله كأنك تراه ، فإن لم تكن تراه فإنه يراك ) ، قال : " فأخبرني عن الساعة " ، قال : ( ما المسؤول بأعلم من السائل ) ، قال : " فأخبرني عن أماراتها " ، قال : ( أن تلد الأمة ربتها ، وأن ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء ، يتطاولون في البنيان ) ثم انطلق فلبث مليا ، ثم قال : ( يا عمر، أتدري من السائل ؟ ) ، قلت : "الله ورسوله أعلم " ، قال : ( فإنه جبريل أتاكم يعلمكم دينكم )
( صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، حدیث : 8 )
اس حدیث میں بیان ہونے والے ارکان اسلام و أرکان إیمان و أرکان احسان ( اللہ میرے أحوال سے واقف ہے أور ہر عمل خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے کرنا غیر اللہ کے تقرب کا اس نیت میں ذرا بھی دخل نہ ہو) پر ایمان ہے تو ہمیشہ خود کو مطمئن رکھے کہ آپکا إیمان صحیح ہے.
اب آپکو وہ قصہ سناتا ہوں جسکا ذکر مینے شروع میں کیا تھا وہ یہ کہ:
آپ ہی کی طرح ایک نوجوان حضرت عمرو ابن مرہ جو کہ اعلام تابعین میں سے تھے أنکے پاس ایک أیسا ہی نوجوان آیا ، أس نے آپ سے عرض کی:
کوئی فرقہ أیسا نہیں ہے جسکو مینے قرآن مجید کی بنیاد پہ اختیار نہ کیا ہو أور پھر اسی فرقہ کو قرآن مجید کی بنیاد پہ ہی چھوڑ دیا أور اب میری حالت یہ ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں بچا ( ہوسکتا ہے إیمان بھی نہ بچے) .
حضرت عمرو ابن مرہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
پہلے قسم اٹھاؤ کہ تم میرے پاس ہدایت کی طلب کے لیے آئے ہو ( نہ کہ مناظرہ و مجادلہ کے لیے)
أس نوجوان نے قسم اٹھائی کہ اللہ کی قسم ہے میں آپکے پاس ہدایت کی طلب کے لیے آیا ہوں .
( آپ نے یہ قسم اس لیے اٹھوائی کہ جو مناظرہ و مجادلہ کے لیے آئے أسکو ہدایت کم ہی نصیب ہوتی ہے کیونکہ وہ ہدایت کا متلاشی نہیں ہوتا بلکہ دوسرے پر غلبہ حاصل کرنا أور أسکو شکست دینے کا خواہش مند ہوتا ہے)
جب اس نے قسم اٹھائی تو حضرت عمرو بن مرہ نے أس نوجوان سے درج ذیل سوالات کیے :
کیا کوئی فرقہ أیسا ہے جو قرآن کو نہ مانتا ہو؟
کیا کوئی أیسا فرقہ ہے جو حضور صلی الله علیہ وسلم کو اللہ کا رسول أور جو وہ لائے ہیں أسکو حق نہ مانتا ہو؟
کیا کوئی فرقہ أیسا ہے جو إسلام کو دین نہ سمجھتا ہو؟
کیا کوئی فرقہ أیسا ہے جو کعبہ مکرمہ کو قبلہ نہ مانتا ہو؟
کیا کوئی فرقہ أیسا ہے جو پانچ وقت کی نماز کو فرض نہ جانتا ہو؟
کیا کوئی ایسا فرقہ ہے جو رمضان کریم کے روزوں کی فرضیت کا قائل نہ ہو؟
کیا کوئی ایسا فرقہ ہے جو حج کی فرضیت کا قائل نہ ہو؟
کیا کوئی أیسا فرقہ ہے جو زکات کی فرضیت پہ إیمان نہ رکھتا ہو؟
کیا کوئی أیسا فرقہ ہے جو جنابت سے غسل کرنے کو فرض نہ جانتا ہو ؟
إسی طرح آپ رحمہ اللہ نے ان مسائل کے متعلق جو قطعی ہیں ثبوتا و دلالتا جس میں کسی کا اختلاف نہیں أنکے متعلق سوالات کیے کہ کیا کوئی فرقہ ان میں سے کسی کا إنکار کرتا ہے؟
نوجوان نے سب سوالات کے جواب میں کہا:
لا ( نہیں) ، یعنی مینے کوئی فرقہ أیسا نہیں دیکھا کہ جو ان مسائل میں سے کسی ایک کا بھی إنکار کرتا ہو۔
پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
" هو الذي أنزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن أم الكتاب وأخر متشابهات" [ آل عمران: 7 ]
ترجمہ: وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل کی جس میں محکم ( صریح ایک معنی والی) آیات بھی ہیں وہی أم الکتاب ہیں ، أور دوسری متشابہات ہیں ( یعنی جسکے معنی میں اختلاف ہے).
حضرت عمرو ابن مرہ نے نوجوان سے پوچھا کیا جانتے ہو کہ محکم و متشابہ آیات کیا ہوتی ہیں؟
نوجوان نے عرض کیا:
نہیں .
حضرت عمرو ابن مرہ نے فرمایا:
محکم ان آیات کو کہتے ہیں جس ( کے معنی) پہ سب کا إجماع ہو ، أور متشابہ آیات أس کو کہتے ہیں جس ( کے معنی) پہ اختلاف ہو ،
لہذا ہمیشہ محکم آیات پہ عمل کرنا أور متشابہ آیات میں غور و خوض نہ کرنا ( یہی إیمان ہے)
نوجوان نے یہ سننے کے بعد عرض کیا:
أب میری حالت پہلے سے اچھی ہے (مطلب مجھے أپنے إیمان پہ اطمئنان ہے أور ان فرقوں کے مسلمان ہونے پر بھی)
( أحسن التقاسیم فی معرفۃ الأقالیم للمقدسی البشاری ، ص : 275 ، سندہ ضعیف ، طبعہ: دار الکتب العلمیہ )
إمام مقدسی حنفی فرماتے ہیں:
جب سے مینے یہ حدیث حسن سنی ہے أس دن سے میں أمت محمدی میں سے کسی بھی فرد کو بدعقیدہ نہیں کہتا ہوں ، أور اس قصہ کے آخر میں کہتے ہیں کہ أمت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے بچو.
لہذا فرحان بھائی !
آپکو اور آج کے نوجوانوں کو أپنے إیمان و إسلام کو اسی قاعدے پہ پرکھنا چاہیے تاکہ وہ مطمئن رہیں أور فرقہ پرستی کی وجہ سے الحاد کا شکار نہ ہوں۔
فرحان بھائی :
بہت بہت شکریہ علی بھائی، آپنے میرے إیمانی اضطراب کو ختم کرکے استقرار کی کیفیت عطاء کی.
عبد عاجز :
استقرار کی کیفیت آپکو اللہ رب العزت نے عطاء کی أسکا شکریہ ادا کرنا أور ہر اس فعل کو چھوڑ دینا جس میں تھوڑا سا بھی شرک کا شبہہ ہو یا استہزائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و إسلام کا.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
Comments
Post a Comment