یوم عرفہ کے دن روزہ رکھنے والی حدیث پہ إمام بخاری و دار قطنی رحمہما اللہ کی جرح کا جواب أز ابن طفیل الأزہری
سؤال:
قال البرقانی سألت دارقطنی عن ھذا الحدیث ،
فقال
لا يصح، وهو كثير الاضطراب، مرة يقول ذا، ومرة يقول ذا، لا يثبت.
(سوالاته)
وقال البخاری فی الاوسط
ورواه عبد الله بن معبد الزماني عن أبي قتادة عن النبي صلى الله عليه وسلم في صوم عاشوراء ولم يذكر سماعا من أبي قتادة
ذکرہ ابن عدی و العقیلی و آئمہ
اسکی وضاحت فرمائیں محترم کیا یہ واقعی صحیح جرح ھے؟
جواب أز ابن طفیل الأزہری (محمد علی)
إمام بخاری رحمہ اللہ نے جو صحیح بخاری میں شرط رکھی أسکے مطابق جرح صحیح ہے أور إمام مسلم نے جو صحیح مسلم میں شرط رکھی أسکے مطابق صحیح نہیں لہذا یہ حدیث صحیح ہے ۔
إمام بخاری و مسلم میں اختلاف روایت ثقہ بالعنعنہ میں ثبوت اللقاء ہے۔
إمام بخاری ثبوت کے قائل ہیں کہ لقاء ثابت ہونی چاہیے
أور إمام مسلم امکان لقاء کے قائل ہیں
أور عبد اللہ ابن معبد الزمانی کی حضرت أبو قتادہ کے ساتھ امکان لقاء کا احتمال ہے کیونکہ معاصرت ہے۔
لہذا امام مسلم کے ہاں غیر مدلس ثقہ راوی معاصر سے اگر عنعنہ سے روایت کرے تو وہ صحیح ہے امکان لقاء کی وجہ سے أور امکان لقاء میں سماع کا احتمال ہے کیونکہ راوی مدلس نہیں لہذا صوم عاشوراء والی روایت صحیح مسلم صحیح ہے۔۔۔۔۔۔
رہی بات دار قطنی کی تو انہوں نے علل میں شعبہ و قتادہ کے طریق کو صواب کہا ہے۔۔
لہذا جب ترجیح آگی تو اضطراب نہ رہا کیونکہ اضطراب حرملہ والی روایت میں ہے
أور إمام مسلم کے ہاں طریق شعبہ وغیرہ کا ہے۔۔۔
باقی بھی ترجیحات کے قرائن ہے لیکن مقام اجمال پہ اتنے ہی کافی ہیں
Comments
Post a Comment